تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے پاکستانی ادیب، فکشن نگار انتظار حسین کی خود نوشت "جستجو کیا ہے؟” ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ہندوستان کے کئی سفر کی داستان ہے۔

اس دوران انھوں نے اپنی بستی کا تفصیلی سفر کیا اور اپنے زمانے کے مشترکہ ہندوستان کی یادداشتوں کی بنیاد پر دو ملکوں کی داستان، اس کی تہذیب اور ان میں بسنے والے ایک جیسے لوگوں کی فکر کے امتزاج سے بنی ایسی مشترک قدروں کو محفوظ کرنے کی سعی کی جنھیں فراموش کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کتاب میں انھوں نے اردو کے آخری داستان گو میر باقر علی کے بارے میں بھی لکھا ہے میر باقر علی کو دہلی کا سحر طراز داستان گو کہا جاتا ہے جنھیں‌ زبان و بیان پر غضب کی قدرت تھی۔ داستان سناتے تو سماں باندھ دیتے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں:

ان (میر باقر علی) کی داستانِ حیات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے، یا شاید وہ زندگی ہی اس طور گزری ہے کہ اس کے درجہ بدرجہ زوال کے ساتھ دلّی کا بھی درجہ بدرجہ زوال دیکھتے چلے جائیے۔

آگے رجواڑوں سے بلاوے آتے تھے۔ کس ٹھسے کے ساتھ وہاں جاتے تھے اور راجوں مہاراجوں کو داستان سناتے تھے۔ وہ دروازہ بند ہوا تو دلّی کے دیوان خانوں میں ساتھ عزّت کے بلائے جاتے۔ رفتہ رفتہ وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ پھر دلّی کے رئیس چھنا مل کے یہاں داستان سنانے پر ملازم ہو گئے۔ ماہوار تنخواہ مبلغ چالیس روپے۔ پھر وہ در بھی بند ہو گیا۔

اب ایرا غیرا نتھو خیرا جس کی گرہ میں دو روپے ہیں وہ گھر پر میر صاحب کو بلائے اور داستان سن لے۔ پھر بقول شاہد صاحب، ’’جب لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے گھر پر داستان کی محفل سجانی شروع کر دی۔‘‘ ایک آنے کا ٹکٹ خریدو اور میر باقر علی سے داستان سن لو۔ مگر پھر کیا ہوا۔ دلّی میں بائیسکوپ آگیا۔ دلّی والوں نے داستان سے منھ موڑا اور بائیسکوپ پر ٹوٹ پڑے۔

انتظار حسین میر باقر علی اور داستان گوئی کے ختم ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

تب میر صاحب نے داستانیں طاق میں رکھیں اور چھالیاں کتر کتر کے بیچنے لگے۔ پہلے ان کی زبان چلتی تھی، اب ان کا سروطہ(سروتا) چلتا تھا۔ کیا گول گول چھالیا ں کترتے تھے۔ گلی محلہ میں انھیں اس حال میں پھیری لگاتے دیکھ کر کوئی پوچھ بیٹھتا کہ میر صاحب یہ چھالیاں اور آپ، تو جواب دیتے کہ ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں، انھیں وہ آداب یاد دلا رہا ہوں۔‘‘ بس دلّی والوں کو پان کھانے کے آداب سکھاتے سکھاتے ہی دنیا سے گزر گئے۔ داستان گوئی کی روایت نے شاہی درباروں سے آغاز کیا تھا، ایک سروطے پر جاکر وہ ختم ہوئی۔

Comments

- Advertisement -