تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

داد اور دادا!

لکھنؤ میں ایک روز میر اور سودا کے کلام پر دو اشخاص میں تکرار ہو گئی۔

دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ بحث طول پکڑ رہی تھی اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا۔ تب دونوں خواجہ باسط کے پاس پہنچے اور اپنا معاملہ ان کے سامنے رکھا۔

”اس پر آپ کچھ فرمائیں۔“ انھوں نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔

”دونوں صاحبِ کمال ہیں، مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام ’آہ‘ اور مرزا صاحب کا کلام’واہ‘ ہے۔ یہ کہہ کر میر صاحب کا شعر بھی پڑھ ڈالا۔

سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

اس کے بعد مرزا کا شعر پڑھا۔

سودا کی جو بالیں پہ گیا شورِ قیامت
خدامِ ادب بولے، ابھی آنکھ لگی ہے

ان میں سے ایک شخص، جو سودا کا طرف دار تھا، ان کے پاس پہنچا اور اپنی تکرار اور خواجہ باسط سے ملاقات کا احوال بھی بیان کر دیا۔ سودا نے جب میر کا شعر سنا تو مسکرائے اور بولے۔

”شعر تو میر صاحب کا ہے، مگر داد خواہی ان کے دادا کی معلوم ہوتی ہے۔“

Comments

- Advertisement -