تازہ ترین

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

یورپی خواتین سیاحوں کے قتل میں داعش ملوث ہے، مراکشی حکام

رباط : مراکشی حکام نے دو یورپی خواتین سیاح کے قتل میں ملوث چار افراد کو گرفتار کرلیا، جن کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش سے بتایا جارہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کی شہری 24 سالہ لوئسیا جیس پرسن اور ناروے کی شہری 28 مارن یولینڈ تین روز قبل مراکش کے مشہور سیاحتی مقام اور شمالی افریقہ کی بلند ترین چوٹی توبقال پر مردہ حالت میں پائی گئی تھیں جنہیں چھری سے ذبح کیا گیا تھا۔

مراکشی پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ ملزمان نے دونوں خواتین کو قتل کرنے سے قبل ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی، جس میں ملزمان کو دہشت گردوں پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

ڈنمارک کے وزیر اعظم لارس لوکّی نے مراکشی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بہیمانہ دوہرے قتل کی تحقیقات دہشت گردی کی دفعات کے تحت کی جائیں۔

یورپی خواتین کے قتل میں ملوث ملزمان

غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جیس پرسن نے مارن یولینڈ کے ہمراہ مراکش کا سفر اختیار کیا تھا تاکہ ایک ماہ کی چھٹیاں سیاحت میں گزرے، دونوں خواتین کے سیاحتی دورے میں اٹلس پہاڑوں کا دورہ بھی شامل تھا۔

مراکشی پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم نے اپنا تعلق مراکش شہر کے دہشت گرد گروہ سے بتایا تھا، مزید تین ملزمان کو اسی شہر نے گرفتار کیا گیا ہے۔

ناروے کی وزیر اعظم ایرنا سولبرگ کا کہنا ہے کہ ’معصوم لوگوں کو بے وجہ بہیمانہ قتل کیا گیا ہے‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بھروسہ ہے کہ مراکشی حکام ذمہ داروں کو تلاش کرکے سزا دیں گے‘۔

برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2003 میں کاسا بلانکا میں ہونے والے دھماکے کے بعد مراکش سمیت شمالی افریقہ کے متعدد ممالک میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں کی تھیں۔

برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ مراکش سے تعلق رکھنے 1600 افراد نے سنہ 2015 میں عراق و شام میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والی شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کی تھی جو اب واپس اپنے گھر (مراکش) آچکے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بیلجیئم اور فرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں بھی مراکشی شہری ملوث تھے۔

Comments

- Advertisement -