تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

جامعہ القرویین جسے صدیوں پہلے ایک عرب رئیس زادی نے تعمیر کروایا تھا

فاس یا فاسِ مدینہ مراکش کا وہ شہر ہے جو نویں صدی میں بسا تھا اور تیرھویں صدی میں تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ترقی کی۔ آج بھی نہ صرف یہ شہر قائم ہے بلکہ اس کی اکثر قدیم اور تاریخی عمارات بھی بہتر حالت میں ہیں۔

مراکش کے اس قدیم ترین کی سب سے بڑی اور قابلِ‌ ذکر عمارت جامعہ القرویین ہے جسے اپنے زمانے کی ایک اہلِ نظر اور صاحبِ ثروت خاتون نے بنوایا تھا۔

یہ فاس شہر کے وسط میں واقع ہے اور اسے دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی یا مدرسہ کہا جاتا ہے جس میں‌ تسلسل کے ساتھ تعلیم و تدریس جاری ہے۔ اپنے دور کی اس اسلامی درس گاہ اور مسجد کی قدامت کو یونیسکو اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق یہ دنیا کی وہ پہلی یونیورسٹی ہے جہاں اس کے وجود میں آنے سے اب تک درس و تدریس جاری رہی ہے، جب کہ دیگر قدیم جامعات اور درس گاہوں کو مکمل بندش یا تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ القرویین کو عرب ممالک میں تعلیم و تدریس کا قدیم مرکز کہا جاتا ہے۔

اس یونیورسٹی کے قیام کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ مشہور ہے کہ نویں صدی کے وسط میں قرویین شہر سے فاطمہ نامی ایک رئیس زادی اپنے والد اور بہن مریم کے ساتھ یہاں آکر سکونت پذیر ہوئی تھی۔ یہ شہر آج کے تیونس کا حصّہ ہے۔

والد کی وفات کے بعد فاطمہ نے یہاں ایک درس گاہ کے قیام کا قصد کیا جو اس دور میں عربوں کی علم و فنون میں دل چسپی اور مراکش و دیگر علاقوں‌ کے لوگوں میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ ہونے کو تقویت دیتی ہے۔ اس نے رقم خرچ کر کے یہ تعلیمی ادارہ اور اس سے متصل اقامت گاہ بھی تعمیر کروائی۔

القرویین یونیورسٹی کی ابتدا ایک مدرسے کے طور پر ہوئی تھی لیکن آج دنیا بھر کے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں دینی علوم کے علاوہ زبان و ادب، گرامر، موسیقی، قانون، میڈیکل سائنس اور جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔

محققین کے مطابق اس جامعہ سے کئی غیر مسلم عالم فاضل شخصیات اور مسلمان سائنس داں‌ وابستہ رہے جن میں ابنِ رشد، ابنِ خلدون، محمد الادریسی، ابنِ میمون، محمد تقی الدّین الہلالی، امام البنانی وغیرہ شامل ہیں۔ اس جامعہ کو مختلف حکم رانوں کے دور میں توجہ حاصل رہی اور اس کا انتظام خوبی سے چلایا جاتا رہا۔

Comments

- Advertisement -