تازہ ترین

اتحاد بین المسلمین کی مظہر ۔ مسجد عبد الرحمٰن

محرام الحرام کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں موجود کچھ شرپسند اذہان عوام کے درمیان ایسے اعتراضات کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں جن سے آپس میں رنجشیں پیدا ہوں اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ نہ ملے لیکن ایسے عناصر نہ پہلے کبھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی ہوسکیں گے۔ کراچی میں ایک ایسی مسجد بھی ہے جو اتحاد بین المسلمین کا روشن مظہر ہے اور دین و ملت میں رخنہ ڈالنے والے عناصر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔

کراچی کی شاہراہ فیصل سے اگر آپ طارق روڈ جانے کے لیے شاہراہ قائدین کا راستہ لیں تو شاہراہ قائدین برج کہلانے والے اس پل کے نیچے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئے گی۔ مسجد کی موجودگی تو کوئی غیرمعمولی بات نہیں، ملک بھر میں آپ کو ہر گاؤں دیہات، قصبہ اور شہر میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی مساجد نظر آئیں گی، لیکن اس مسجد کی خاص بات اس کے باہر لگا ہوا وہ بورڈ تھا جو ہر آتے جاتے شخص کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا ہے۔

اس بورڈ پر لکھی عبارت نہایت حیرت انگیز ہے، ’یہ مسجد تمام مسالک کے مسلمانوں کے لیے ہے‘، اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ، نہ صرف مسجد قائم ہے بلکہ آباد بھی ہے۔

جب ملک بھر میں فرقہ وارانہ تعصب عروج پر ہو اور آپ کے کانوں میں اپنے سے مختلف فرقہ کے مسلمانوں کے لیے ’کافر‘ کا نعرہ گونجتا ہو تو ایسے میں یہ مسجد، کم از کم میرے لیے بہت انوکھی تھی۔ عصر حاضر کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب ’آب گم‘ میں لکھتے ہیں، ’مسلمانوں نے کسی کے ہندو، عیسائی یا بدھ مت کا پیروکار ہونے پر کبھی تعرض نہیں کیا۔ البتہ اپنے فقہ اور فرقے سے باہر ہر دوسرے مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والے کا سر پھاڑنے اور کفر کا فتویٰ لگانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں‘۔

تو ایسے میں وہ کون مرد مومن تھا جس نے مسجد بنوا کر اس قدر کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا کہ اسے ہر فرقے کے لوگوں کے لیے عام کردیا؟

پہلی بار جب میں اس مسجد، مسجد عبد الرحمٰن میں گئی، تو چونکہ وہ کسی نماز کا وقت نہیں تھا، لہٰذا مسجد خالی تھی۔ مسجد کے سامنے ہی پولیس چوکی بنی ہوئی ہے۔ چوکی میں موجود اہلکاروں نے جب ہمیں کیمرے کے ساتھ مسجد میں جھانکتے دیکھا تو ان میں سے ایک اہلکار قریب آگیا۔

رسمی تعارف اور آمد کے مقصد کے بعد انہوں نے بتایا کہ مسجد میں پانچوں وقت باجماعت نماز ہوتی ہے۔ وہ خود بھی اس وقت نماز مغرب کی تیاری کے لیے جارہے تھے اور ان کا یہیں نماز پڑھنے کا ارادہ تھا۔

جب ہم نے ان سے مزید سوالات کیے تو پتہ چلا کہ اس مسجد کو دراصل کچھ پولیس اہلکاروں نے اپنی سہولت کے لیے بنایا تھا۔ جس بھلے شخص نے یہ مسجد بنوا کر اس کے باہر یہ حیرت انگیز بورڈ لگایا، پولیس ڈپارٹمنٹ میں وہ ایس ایچ او گوگا کے نام سے مشہور ہے۔

اب ہماری تلاش ایس ایچ او گوگا کے لیے تھی جو بے شمار فون کالز کے بعد بالآخر ختم ہوئی۔

جب میری ایس ایچ او گوگا سے بات ہوئی تو میرا پہلا سوال یہی تھا، کہ وہ کیا وجہ تھی کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا جو فرقہ وارانہ شدت پسندی کے اس ماحول میں شاید ان کی جان جانے کا سبب بھی بن سکتا تھا؟

ایس ایچ او گوگا

ایس ایچ او گوگا جن کا اصل نام محمد زکیب ہے، نے بتایا، ’جب ہم نے یہ مسجد بنائی تو پہلے دن ایک مسلک کے لوگ ہمارے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ہمارے مولانا اس مسجد میں نماز کی امامت کریں گے۔ میں نے کہا سو بسم اللہ کیوں نہیں۔ اگلے دن ایک اور فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص یہی مطالبہ لے کر آگیا، تب مجھے خیال آیا کہ یہ تو خوامخواہ ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا‘۔

ایس ایچ او گوگا کے مطابق انہوں نے ’مولوی بٹھانے‘ کی فرمائش لے کر آنے والے تمام افراد کو شکریہ کے ساتھ واپس لوٹا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ’یہ مسجد تمام مسالک کے مسلمانوں کے لیے ہے‘والا بورڈ لٹکایا اور ایک معتدل خیالات رکھنے والے مولانا کو یہاں کا امام مقرر کردیا۔

انہوں نے کہا، ’نیک نیتی سے قائم کی جانے والی اس مسجد کو اللہ نے اتنی برکت دی کہ آج بغیر کسی تنازعہ کے پانچوں وقت یہاں باجماعت نماز ہوتی ہے‘۔

سنہ 2012 میں یہ مسجد قائم کرنے والے ایس ایچ او گوگا اس وقت محکمہ 15 کے انچارج تھے۔ وہ اپنی جیب سے مسجد کے امام کو 2500 روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے۔ ڈیڑھ سال بعد انہیں ایس ایچ او سچل تعینات کردیا گیا اور ان کی جگہ ایک اورایس ایچ او ہمایوں نے سنبھال لی۔

ایس ایچ او گوگا کا کہنا تھا کہ وہاں سے جانے سے قبل انہوں نے ایس ایچ او ہمایوں کو مسجد کے انتظامات اورامام کی تنخواہ کی ذمہ داری بھی سونپی جو انہوں نے بخوشی قبول کی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے اس بورڈ یا کسی مسلکی اختلاف کی وجہ سے یہ مسجد کبھی کسی تنازعہ کا شکار نہیں بنی۔ ’کم از کم میں نے اپنی آنکھوں سے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا‘۔

سنہ 2013 میں انہیں ایک سانحہ سے گزرنا پڑا۔ 20 مئی 2013 کو دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے وال ایک مسلح تصادم کے دوران ان کی کمر میں گولی لگ گئی۔ انہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں سرکاری خرچ پر ان کا بہترین علاج کیا گیا، لیکن علاج کارگر نہ ہوسکا اور انہیں اپنے دونوں پاؤں کھونے پڑے، ’بس جو اللہ کو منظور‘۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

واکنگ اسٹک کے سہارے چلتے ہوئے گوگا اب بھی محکمہ پولیس سے منسلک ہیں اورہیڈ کوارٹر ایسٹ میں دفتری امور کی انجام دہی کر رہے ہیں۔

نمازیوں سے آباد یہ مسجد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام میں فرقوں کا تصور نہ ہونے کے باوجود ان کی موجودگی ایک حقیقت تو ہے، لیکن یہ کوئی ایسی وجہ نہیں جس پر دوسرے مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے، اس اسلام سے جس نے ہمیشہ عالمی انسانیت کا درس دیا۔ بقول ایس ایچ او گوگا، ’یہ مسجد ’تمام مسلمانوں‘ کے لیے بنائی گئی ہے‘۔

Comments

- Advertisement -