لاہور: سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہل کاروں کے ہاتھوں جاں بحق ڈرائیور ذیشان کی والدہ نے کہا ہے کہ میرا بیٹا دہشت گرد نہیں ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے والدہ ذیشان نے کہا کہ میرا بیٹا دہشت گرد نہیں ہے، وہ نیو اسکول ماڈل ٹاؤن سے پڑھا تھا۔
[bs-quote quote=”کلبھوشن کو زندہ گرفتار کیا جا سکتا ہے تو ذیشان کو کیوں مارا گیا؟” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”بیوہ ذیشان”][/bs-quote]
والدہ ذیشان نے بتایا کہ میرا بیٹا ذیشان لائق تھا، دکان پر کمپیوٹر ٹھیک کرتا تھا، لیکن دکان میں آگ لگنے کے بعد سے گھر پر کمپیوٹر ٹھیک کرتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ذیشان سے ملنے ہمارے گھر کوئی مہمان نہیں آیا تھا، وہ گھر سے سوا 8 بجے نکلا تھا، میں گھر سے سبزی لینے گئی تھی، واپس آئی تو لوگوں نے پوچھا بیٹا کہاں ہے؟
والدہ نے آب دیدہ ہو کر بتایا ’میں نے لوگوں کو بتایا کہ ذیشان بورے والا شادی میں گیا ہے، شادی میں شرکت کے لیے 3 گاڑیاں ایک ساتھ گئی تھیں، لیکن لوگوں نے بتایا کہ ذیشان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے۔‘
انھوں نے کہا اب میرا بیٹا واپس نہیں آ سکتا، التجا ہے میرے بیٹے پر لگایا گیا دہشت گردی کا الزام واپس لیا جائے، ذیشان میرا واحد سہارا تھا، وہ مجھے گھروں پر کام کرنے سے روکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ساہیوال واقعے کے ذمے داروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی: وزیر اعظم
والدہ ذیشان نے مزید کہا ’ذیشان کی 7 سال کی بیٹی ہے، دہشت گردی کا الزام واپس لیا جانا چاہیے۔‘
ذیشان کی بیوہ نے پروگرام میں سوال کیا کہ کلبھوشن کو زندہ گرفتار کیا جا سکتا ہے تو ذیشان کو کیوں مارا گیا؟
مقتول خلیل کے بھائی نے بھی پروگرام میں گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ ذیشان دہشت گرد نہیں تھا اور نہ میرے اہل خانہ دہشت گرد تھے، اگرذیشان دہشت گرد ہوتا تو ہم اپنی فیملی کو اس کے ساتھ بھیجتے؟
انھوں نے بتایا کہ ذیشان کی گاڑی ہمیشہ گھر کے دروازے پر کھڑی ہوتی تھی، ذیشان کو جانتا ہوں وہ میرے بھائیوں جیسا تھا۔