تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہاں مالک و مختار بنا کر بھیجا گیا۔ وہ متحدہ ہندوستان (برٹش انڈیا) کا آخری وائسرائے تھا جسے آنے والے دنوں میں یہاں کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین اور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا جس کے ساتھ ہی ہندوستان سے برطانیہ کا اقتدار بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا۔

ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سے بات چیت اور مذاکرات کیے جب مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن اور خودمختار و آزاد ریاست کے لیے اکٹھے ہوچکے تھے اور کسی قیمت پر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور متحدہ ہندوستان میں حکومت کرنے کا کوئی فارمولا اور آئینی راستہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے نوآبادیات کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، بالخصوص ہندوستان میں آزادی کے لیے مزاحمت، سیاسی دباؤ اور نوآبادیات میں‌ انتشار اور افراتفری نے برطانوی حکومت کی پریشانیاں بڑھا دی تھیں جس کی شدّت کو کم کرنے کے لیے ماؤنٹ بیٹن کو بھیجا گیا اور متحدہ ہندوستان کو قائم رکھنے کے لیے بات چیت میں ناکامی کے بعد تقسیم کا اعلان کردیا گیا۔

اس موقع پر ایک مرتبہ پھر انگریزوں کی مکّاری اور مسلمان دشمنی کے ساتھ ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا اور انگریزوں نے مسلمانوں کے باب میں جو جو زیادتیاں اور نا انصافیاں کیں، وہ ایک اور نہایت دردناک داستان ہے۔

مسلمانانِ برصغیر کی آزادی اور خود مختاری انھیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریس نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ آزاد اور خود مختار ریاستوں کا الحاق انڈین یونین سے کیا جائے گا جب کہ ایک اجلاس میں پارلیمنٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ برطانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ریاستوں کی آزاد حیثیت بحال ہوجائے گی، لیکن حیدرآباد دکن، جودھ پور، جونا گڑھ، بھوپال، بیکانیر اور میسور کے ساتھ جو کچھ ہوا ایک علیحدہ دل خراش داستان ہے۔ اضلاع اور سرحد کی تقسیم میں ناانصافیوں کے ساتھ قتل و غارت گری، دھمکیوں اور دباؤ کے شرم ناک اور اوچھے ہتھکنڈے اسی ماؤنٹ بیٹن اور ہندوؤں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھے۔

3 جون 1947ء ہندوستان کی تاریخ میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز موقع پر ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا تھا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس سے پہلے ہندوستان کا مسئلہ آئینی طریقے سے حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے جتنی بھی کوششیں کی تھیں، وہ ناکام ہوگئی تھیں۔ اس دن طے پایا تھا کہ ہندوستان کو ہندو اکثریت اور مسلمان اکثریت والے علاقوں میں بانٹ دیا جائے گا مگر ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا اور کھلی سازش اور زبردستی سے کئی علاقے بھارت کو دے دیے گئے جنھیں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر کون سا علاقہ ہندوستان میں اور کون سا پاکستان میں شامل ہو گا، یہ طے کرنے کا کام برطانوی وکیل ریڈ کلف کا تھا اور وہ تقسیم کی لیکر کھینچ بھی چکے تھے، لیکن وائسرائے کی جانب سے بلاوا آیا اور ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد راتوں رات فیروز پور جیسے متعدد علاقے جو اصولی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ تھے، ہندوستان کو دے دیے گئے۔

14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر آزاد مسلم ریاست ضرور ابھری، لیکن اس وقت تک چالاک اور جانب دار ماؤنٹ بیٹن اپنے سازشی فیصلوں کی وجہ سے ہزاروں زندگیوں کو مشکل میں ڈال چکا تھا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔

Comments

- Advertisement -