لندن: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے تنظیم سے متعلق تمام اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے آرا م کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، فاروق ستار نے گزشتہ روز ان کی صحت یابی تک تنظیمی معاملات سے انہیں دور رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیزآبادی نے ٹویٹر پر پارٹی قائد کی جانب سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اپنے دوروز قبل کے بیان پر پاکستان کے عوام سے معافی مانگتے ہوئے رابطہ کمیٹی پاکستان کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔
گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنماڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں انتہائی اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیاتھا کہ ان کی پارٹی کے تمام تر فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے۔
انہوں نے دو روز قبل پارٹی رہنما کی جانب سے دیے گئے پاکستان مخالف بیان اوران کے اکسانے پر کارکنان کی جانب سے اے آروائی نیوز اور دیگر میڈیا ہاؤسز پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس بیان اور کارکنان سے اظہارِ لاتعلقی کیا اور کہا کہ اس قسم کے واردات متحدہ قائد کی ذہنی طبعیت کی ناسازی کی بنا پر تواتر سے پیش آرہے ہیں جس کی بنا پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ قائد کی صحت یابی تک ایم کیو ایم لندن رابطہ کمیٹی اور قائد سے لاتعلق رہے گی اور تمام تر فیصلے پاکستان میں ہی کیے جائیں گے۔
متحدہ قائد کی جانب سے جاری کردہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر عمل کریں گےاور اپنی صحت کے مسائل پر توجہ دیں گے‘اور رابطہ کمیٹی ملکی معاملات میں فیصلے لینے کے لیے مکمل بااختیار ہوگی۔
جاری کردہ بیان کے مطابق انہوں نے رابطہ کمیٹی سے اپیل کی ہے کہ گرفتار اور لاپتہ کارکنان کی رہائی اور بازیابی کے مسئلے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی جائے۔
ایم کیو ایم کارکنان کا اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ*
ذرائع کا کہنا ہےکہ پالیسی سازی کے اختیارات بھی رابطہ کمیٹی کے سپر د کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ لندن میں پارٹی رہنماﺅں کو بلا جواز بیان بازی سے روک دیا گیا ہے ۔
پریس کانفرنس کے دوران فاروق ستار کے ہمرا ہ سندھ اسسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن‘ نسرین جلیل اور عامر لیاقت موجود تھے‘ تاہم عامر خان نے چند گھنٹوں بعد ایم کیو ایم سےعلیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔
یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے دو روز قبل پاکستان اور افواج مخالف بیانات دیے تھے اور کارکنان کو میڈیا ہاؤسز پر حملے کے لیے اکسایا تھا جس کے بعد ایم کیو ایم کے مسلح کارکنان اے آروائی نیوز کے بیورو آفس پر حملہ آور ہوگئے تھے ۔