تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی ملا واحدی کی زندگی کا سفر 22 اگست 1976ء کو کراچی میں تمام ہوا۔ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

ملا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تعلیم بھی اسی شہر سے مکمل کی۔ ادب اور صحافت کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا اور 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -