تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

تاج محل کی مکین ’ممتازمحل‘ کا 426واں یوم پیدائش

مغل سلطنت کے پانچویں طاقت ورحکمران شاہجہاں کی محبوب ملکہ ممتازمحل کا آج 426 واں یوم پیدائش ہے، شاہجہاں کی ممتاز سے محبت کی نشانی ’تاج محل‘ہے جو کہ ساری دنیا میں محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

مغل سلطنت میں بے پناہ اختیارات کی حامل ملکاؤں میں ممتاز محل کو نمایاں مقام حاصل ہے ، ان کا اصل نام ارجمند بیگم تھا اور وہ 27 اپریل 1593 کو آگرہ میں پیدا ہوئی تھیں۔

ممتازمحل مغل شہنشاہ شاہجہاں کی تیسری اور سب سے محبوب بیوی تھیں ، دونوں کے 14 بچے تھے جن میں سے تین بیٹیاں اور چار بیٹے سلامت رہے۔

ممتاز محل اور شاہ جہاں

خیال کیا جاتا ہے کہ نورجہاں کے بعد اگر کسی ملکہ نے پردے کے پیچھے سے مغل تخت پر حکومت کی ہے تو وہ ممتاز محل ہی ہیں، ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں میں تخت کے حصول کی جنگ چھڑگئی جس کے سبب اورنگ زیب کے سوا سب مارے گئے، خود ان کے محبوب شوہر شاہجہاں تخت سے معزول ہوکر شاہی قلعے تک محدود ہورہے۔

اس عظیم الشان ملکہ کا انتقال 17 جون 1631 کو برہان پور میں 14 ویں بچے کی پیدائش کے دوران انفیکشن کے سبب ہوا، کچھ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ ممتاز محل کے بے پناہ اثر ورسوخ اور کارسلطنت میں بے جا مداخلت کے سبب انہیں انتہائی خاموشی سے اس موت کی جانب دھکیلا گیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر صرف 39 سال تھی۔

قتل کی کہانی بیان کرنے والے تاریخ دانوں کے بیان کو شاہ جہاں کے رویے سے کسی بھی طور تقویت نہیں ملتی کہ دو سال تک انہوں نے سوگ میں اپنے تمام کام ترک کردیے تھے اور کاروبارسلطنت مشیروں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ دو سال سوگ منا نے کے بعد ایک دن شہنشاہ کو خیال آیا کہ ممتاز کی قبر پر ایک ایسی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جائے جس کے سبب رہتی دنیا تک لوگ اس محبت کو یاد رکھیں۔

آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے 1633 میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ عظیم معمار استاد عیسیٰ شیرازی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، تاہم بادشاہ نامے کے مطابق شاہ جہاں خود اس عمارت کے آرکیٹیکٹ تھے ، استاد احمد لاہور ی کی نگرانی میں 20 ہزار مزدور 17 سال تک شب ور وز کام میں مشغول رہے ۔ کہتے ہیں اس زمانے میں’تاج محل‘ پر تین کروڑ 20 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔ مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تاج پر جاری کام کے سبب سلطنت میں قحط بھی پڑگیا تھا۔

سفید سنگِ مرمر سے تعمیرکردہ یہ عظیم الشان عمارت جب مکمل ہوئی تو شہنشاہ نے ممتاز محل کی اس آخری آرام گا ہ کو تاج محل کا نام دیا۔ اور محل میں ایسی جگہ سکونت اختیار کی جہاں سے وہ اٹھتے بیٹھتے اس عمارت کا دیدارکرسکیں۔

تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمریں دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔

مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے، سنگ سرخ کا ہے۔

ممتاز اور شاہجہاں کی آخری آرام گاہیں

تاج محل کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہاں کی قبریں ہیں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں