بدھ, جنوری 22, 2025
اشتہار

مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنے دورِ عروج میں کئی باکمال اور بہترین فلم ساز، ہدایت کار اور بے مثل اداکار ہی‌ نہیں لاجواب شاعری تخلیق کرنے والے بھی ملے جن میں ایک نام مشیر کاظمی کا ہے وہ اعلیٰ پائے کے ایسے گیت نگار تھے جن کے فلمی گیت اور نغمات پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

آج مشیر کاظمی کی برسی ہے۔ وہ 8 دسمبر 1975ء میں‌ وفات پا گئے تھے۔ فلمی شاعر مشیر کاظمی کا تعلق ہندوستان کے مشہور شہر انبالہ سے تھا۔ 1915ء میں پیدا ہونے والے مشیر کاظمی کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ ان کے والد پولیس سروس سے وابستہ تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو ترک کرکے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر شعر و ادب کی طرف مائل ہوگئے۔ مشیر کاظمی نے وہ دور دیکھا جب تقسیمِ ہند اور انگریزوں کے خلاف تحریکیں عروج پر تھیں اور دوسری طرف ادب اور فلم کے شعبوں میں‌ کئی بڑے نام اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔ مشیر کاظمی کو بھی انقلابی ترانے، رومانوی شاعری اور فلم کی دنیا اپنی جانب کھینچنے لگی تھی۔ اس وقت کلکتہ، ممبئی اور لاہور میں بڑی شان دار فلمیں تخلیق ہو رہی تھیں۔ مشیر کاظمی ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے تھے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور منتقل ہوگئے اور یہیں فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ بطور شاعر وہ اپنا سفر شروع کرچکے تھے اور لاہور میں‌ انھوں‌ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں بننے والی فلموں کے لیے بطور گیت نگار بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیا۔ اس میدان میں کام یابی نے ان کے قدم چومے اور بطور فلمی گیت نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔

فلم دوپٹہ کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں وہ پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے۔ مشیر کاظمی کے گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا نغمہ نگار بنا دیا۔ وہ چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی نظر آئے۔ بشیرا اپنے وقت کی ایک مشہور فلم تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں دکھایا گیا کہ یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے۔ اس موقع پر معاون اداکار کے طور پر مشیر کاظمی ہیرو کے قریب ہوتے ہیں اور فلم بینوں کو پردے پر بڑے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

- Advertisement -

مشیر کاظمی نے زندگی میں‌ کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے۔ پہلی فلم اور گلوکارہ نور جہاں‌ سے ملاقات سے متعلق ایک واقعہ ممتاز صحافی ستار طاہر نے اپنی کتاب ’تعزیت نامے‘ میں لکھا ہے: ’وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا جب انہیں (مشیر کاظمی کو) پہلی بار نور جہاں کے سامنے بطور شاعر لے جایا گیا۔ تب ان کا لباس بے حد معمولی اور میلا تھا، شیو بڑھا ہوا تھا اور انہیں ایسے کمرے میں بٹھایا گیا تھا جہاں بہت سارے آئینے لگے ہوئے تھے۔ وہ ان آئینوں میں اپنی خستہ حالی کی تصویر دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ یہ اس شخص کی نور جہاں سے پہلی ملاقات تھی، جس کی آواز میں اپنا گیت سننے کے لیے اس نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ خستہ حالی اور فاقہ کشی کو اپنا لیا تھا۔ نور جہاں نے گیت سنا اور فضلی صاحب سے کہا اس شاعر سے گیت لکھوائیں، میں انہی کے گیت گاؤں گی اور یوں ’دوپٹہ‘ کے گیت نگار کی حیثیت سے مشیر کاظمی کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو پوری ہوگئی۔‘

ان کا شمار اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، لیکن قومی و ملّی نغمات اور فلمی گیتوں نے مشیر کاظمی کو بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے مشیر کاظمی کی شاعری ایک محبِ وطن اور سچّے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ مشیر کاظمی نے پاکستان اور بھارت کی جنگوں کے دوران روح گرما دینے والے ملّی نغمات لکھے جن کی گونج آج بھی وطن عزیز کی آزاد فضا میں سنائی دیتی ہے۔

فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدا بہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت فلم دوپٹہ میں شامل ہوا اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ مشیر کاظمی کے چند مشہور فلمی گیتوں میں تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے، ہم چلے اس جہاں سے، دل اٹھ گیا یہاں سے، شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے،

مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں