تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

افزائشِ حسن کا طریقہ!

جو عورتیں دواؤں سے پرہیز کرتی ہیں، وہ صرف ورزش سے خود کو ’’سلم‘‘ رکھ سکتی ہیں۔

’’سلمنگ‘‘ کے موضوع پر عورتوں کی رہبری کے لیے بے شمار باتصویر کتابیں ملتی ہیں جن کے مضامین عورتیں پڑھتی ہیں اور تصویروں سے مرد جی بہلاتے ہیں۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ مرد کاٹھ کے پتلے کی مانند ہے، لیکن عورت موم کی طرح نرم ہے۔ چنانچہ مرد کو ہر سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ پھر اس کے اپنے گوشت پوست میں قدرت نے وہ لوچ رکھا ہے کہ

سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

چنانچہ ہرعضوِ بدن کے لیے ایک علاحدہ ورزش ہوتی ہے۔ مثلاً دہری ٹھوڑی کو اکہری کرنے کی ورزش، 51 انچ کو 15 انچ بنانے کی کسرت۔ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر غذا ہضم کرنے کی ترکیب۔ شرعی عیوب کا ہپناٹزم سے علاج وغیرہ۔

توند کے لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست داں کے ضمیر کی مانند ہے۔ اس کی لچک کو ذہن نشین کرانے کی غرض سے وہ اکثر اسے مولوی اسماعیل میرٹھی کے ’وقت ‘سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق وہ کہہ گئے ہیں

وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے کھنچتی ہے، چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ

حق تو یہ ہے کہ جدید سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دماغ کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حسبِ منشا گھٹایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔

یہی حال عورتوں کے رسالوں کا ہے۔ ان کے (رسالوں کے) تین ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں۔ اوّل: آزادیٔ اطفال اور شوہر کی تربیت و نگہداشت۔ دوّم: کھانا پکانے کی ترکیبیں۔ سوّم کھانا نہ کھانے کی ترکیبیں۔ ان مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشخیص سب کی ایک ہی ہے۔ بس نسخے مختلف ہیں۔ پرہیز بہر صورت یکساں!

اس امر پر سب متفق ہیں کہ افزائشِ حسن کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی غذا کھائی جائے جس سے خونِ صالح نہ پیدا ہو اور جو جزوِ بدن نہ ہو سکے۔ ہماری رائے میں کسی پڑھی لکھی عورت کے لیے اس سے سخت اور کون سی سزا ہو سکتی ہے کہ اسے چالیس دن تک اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایا جائے۔ دبلے ہونے کا اس سے بہتر اور زود اثر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

رسالوں کے اس حصّے میں تاریخی ناولوں کا چٹخارہ اور یونانی طب کی چاشنی ہوتی ہے، اس لیے نہایت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ چند عنوانات اور ٹوٹکے بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔

زلیخا حضرت یوسف کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے دوبارہ جوان ہوئی! قلو پطرہ کے نازک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منہ مصری تربوز کا پانی اور رعیت کا خون پیتی تھی۔ ملکہ الزبتھ اس لیے دبلی تھی کہ میری آف اسکاٹ نے اس کا موم کا پتلا بنا رکھا تھا جس میں وہ چاندنی رات میں سوئیاں چبھویا کرتی تھی۔ کیتھرین، ملکۂ روس کے’سلم‘ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو روغنِ قاز مل کر سوتی تھی۔ ملکہ نور جہاں بیگن پر جان دیتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیگن کے سر پر بھی تاج ہوتا ہے، بلکہ اس میں کوئی پروٹین نہیں ہوتی۔ ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوب صورتی کا راز ایک ہی ہے۔ سفید رنگ! ایکٹریس آڈرے ہیپ برن اس لیے موٹی نہیں ہوتی کہ وہ ناشتے میں نشاستے سے پرہیزکرتی ہے اور پھیکی چائے پیتی ہے جس سے چربی پگھلتی ہے۔

چائے کی پتی سے گھٹ سکتا ہے عورت کا شکم

دبلے آدمی کینہ پرور، سازشی اور دغا باز ہوتے ہیں۔ یہ ہماری نہیں بلکہ جولیس سیزر کی رائے ہے جس نے ایک مریل سے درباری کی ہاتھوں قتل ہو کر اپنے قول کو سچا کر دکھایا۔ گو کہ ہمارے موزے کا سائز صرف گیارہ اور بنیان کا چونتیس ہے لیکن ہمیں بھی اس نظریہ سے اتفاق ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ موٹی عورتیں فطرتاً ملن سار، ہنس مکھ اور صلح پسند ہوتی ہیں۔ وہ نہ خود لڑتی ہیں اور نہ مرد ان کے نام پر تلوار اٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی صاحب اس کا یہ جواز پیش کریں کہ چوں کہ ایسی گج گامنی کی نقل و حرکت بغیر جرِ ثقیل کے ممکن نہیں لہٰذا وہ نہ ڈٹ کر لڑ سکتی ہے اور نہ میدان چھوڑ کر بھاگ سکتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی موٹی عورت کی وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

خدا نخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حسن میں ہارس پاور کے متلاشی ہیں اور اکھاڑے کی رونق کو چھپر کھٹ کی زینت بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔

ایسی ہی چوڑی چکلی خاتون کا لطیفہ ہے کہ انہوں نے بس ڈرائیور سے بڑی لجاجت سے کہا، ’’بھیا! ذرا مجھے بس سے اتر وا دے۔‘‘ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو اس کا چہرہ فرشتوں کی طرح تمتما اٹھا۔ ان فرشتوں کی طرح جنہوں نے بارِ خلافت اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر خود ہی بولیں، ’’میری عادت ہے کہ دروازے سے الٹی اترتی ہوں مگر تمہارا الٹی کھوپڑی کا کنڈکٹر سمجھتا ہے کہ چڑھ رہی ہوں اور ہر دفعہ زبردستی اندر دھکیل دیتا ہے۔ تین اسٹاپ نکل گئے۔‘‘

(اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون صنفِ لاغر سے اقتباسات)

Comments

- Advertisement -