تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

اکبر، محمد شاہ رنگیلا اور موسیقی کا شوق

قوموں کے عروج و ترقی کے زمانے میں جو اشتغال تحسینِ فکر اور تہذیبِ طبع کا باعث ہوتا ہے وہی دورِ تنزل میں طبیعت کے لیے مہلک اور فکر کے لیے آفت بن جاتا ہے۔

ایک ہی چیز حسنِ استعمال اور اعتدالِ عمل سے فضل و کمال کا زیور ہوتی ہے اور سوئے استعمال اور افراط و تفریط سے بداخلاقی اور صد عیبی کا دھبا بن جاتی ہے۔

موسیقی کا ایک شوق تو اکبر کو تھا کہ اپنی یلغاروں کے بعد جب کمر کھولتا تو مجلسِ سماع و نشاط سے تھکن مٹاتا اور پھر ایک شوق محمد شاہ رنگیلے کو تھا کہ جب تک محل کی عورتیں اسے دھکیل دھکیل کر پردہ سے باہر نہ کر دیتیں دیوان خانہ میں قدم نہیں رکھتا۔

صفدر جنگ جب دیوان کی مہمات سے تھک جاتا تو موسیقی کے باکمالوں کو باریاب کرتا۔ اسی کی نسل میں واجد علی شاہ کا یہ حال تھا کہ جب طبلہ بجاتے بجاتے تھک جاتا تو تازہ دَم ہونے کے لیے اپنے وزیر علی تقی کو باریابی کا موقع دیتا۔ موسیقی کا شوق دونوں کو تھا، مگر دونوں کی حالتوں میں جو فرق تھا وہ محتاجِ بیان نہیں۔

مشرق و مغرب کی دو متضاد سمتوں کی طرف روانہ ہونے والوں میں بہت بُعد ہوتا ہے۔ اس بات کی عام طور پر بہت شہرت ہوگئی ہے کہ اسلام کا دینی مزاج فنونِ لطیفہ کے خلاف ہے اور موسیقی محرماتِ شرعیہ میں داخل ہے۔ حالاں کہ اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ فقہا نے سدِ وسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا اور یہ تشدد بھی بابِ قضا سے تھا، نہ کہ بابِ تشریع سے۔

(ابوالکلام آزاد کی مشہور تصنیف غبارِ خاطر سے ایک ٹکڑا)

Comments

- Advertisement -