کراچی: ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے تصدیق کی ہے کہ شواہد مل گئے ہیں کہ مصطفیٰ عامر کو قتل کیا گیا ہے، کارپٹ سے ملے خون کے نمونے لاش سے ملے نمونوں سے میچ کر گئے ہیں۔
مصطفیٰ عامر نامی نوجوان کے اغوا اور قتل کیس کے سلسلے میں ڈی آئی جی سی آئی اے نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ 6 جنوری 2025 کو مصطفیٰ عامر لاپتا ہوئے جبکہ سی آئی اے اور سی پی ایل سی نے مل کر کیس کی تحقیقات کیں، شواہد مل گئے ہیں کہ مصطفیٰ عامر کو قتل کیا گیا ہے۔
مقدس حیدر نے بتایا کہ پولیس نے ڈیفنس میں چھاپہ مارا جہاں سے ایک ملزم ارمغان کو گرفتار کیا ہے، 7 جنوری 2025 کو مصطفیٰ عامر کے اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا، مقتول کی والدہ کو تاوان کی کال موصول ہوئی تو مقدمہ ہمیں ریفر ہوا، لاش کو ٹھکانے لگانے کیلیے بلوچستان کے شہر حب کے علاقے کا استعمال کیا گیا جہاں دراجی پولیس اسٹیشن کے قریب گاڑی میں لاش رکھ کر آگ لگائی گئی، تھانے کے قریب سے جلی ہوئی گاڑی ملی جسے لاوارث سمجھ کر دفنا دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ گرفتار ملزم ارمغان سے اب تک 54 لاکھ روپے ریکور کر لیے گئے ہیں، اس کی انکم کیا تھی اور اتنا پیسہ کہاں سے آ رہا تھا تحقیقات ہوں گی، بدقسمتی سے ملزم کا ریمانڈ ہمیں نہیں مل سکا، ہمیں ارمغان کا ریمانڈ مل جاتا تو مزید حقائق بھی معلوم ہوتے، ریمانڈ کی درخواست دی عدالت نے قبول نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ کیس میں پولیس کو گاڑی اور جلی ہوئی لاش مل گئی
ڈی آئی جی سی آئی اے نے مزید بتایا کہ ارمغان کے گھر سے مصطفیٰ عامر کا موبائل فون ریکور کر لیا گیا ہے، مقتول اور ملزم کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا تھا، مصطفیٰ عامر ارمغان کے گھر پر گیا تھا اور وہاں دونوں میں جھگڑا ہوا تھا، مصطفیٰ عامر کو ارمغان نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
مقدس حیدر نے بتایا کہ ارمغان کے 2 ملازمین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے، کیس میں ایک اور ملزم شیراز عرف شاہ ویز کو گرفتار کیا گیا ہے، شاہ ویز کو کل عدالت میں پیش کیا جائے گا، ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ عامر کو کال کر کے گھر بلایا تھا، ارمغان کے پاس سے 64 لیپ ٹاپس ملے ہیں، کرپٹو سمیت دیگر کام کرتا تھا، ارمغان کے گھر چھاپے میں کارپٹ سے خون کے نشانات بھی ملے۔
’ارمغان نے قتل کے بعد مصطفیٰ کو گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر حب منتقل کیا، ہم کل لاش کی تصدیق اور ریکوری کیلیے جائیں گے، مقتول کے ڈی این اے متاثرہ فیملی سے ملانے کیلیے بھیج دیے ہیں، کارپٹ سے ملے خون کے نمونے لاش سے ملے نمونوں سے میچ کر گئے ہیں۔‘