تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

کتب بینی میں کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا، مستنصر حسین تارڑ

کراچی: ممتاز مصنف، کالم و نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا، قاری اپنےرائٹر سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق لکھے۔

تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز کئی ادبی محافل کا انعقاد کیا گیا، چھٹے اجلاس میں ممتاز مصنف، کالم نگار ، ڈرامہ اور نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی ہے بلکہ یہ پہلے سے بڑھ گئی، پہلے پڑھنے والا لکھنے والے کے پیچھے ہوتا تھا مگر آج قاری  لکھنے والے سے آگے آگے ہوتا ہے، اس لیے وہ مصنف سے بین الاقوامی طرز پر لکھنے کی توقع بھی رکھتا ہے‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ  مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ میری کتابوں کی فروخت زیادہ کیوں نہیں ہوتی؟ میرا جواب یہی ہے کہ میں اچھا لکھتا ہوں، پہلے رائٹرز کا ایک ایڈیشن شائع ہوتا تھا اور سال سال بھر پڑا رہتا تھا مگر اس میں مصنف کی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ کتاب کے تقسیم کار  کی غلطی تھی کیو نکہ وہ کتاب کی درست طریقے سے تقسیم نہیں کرتے تھے، اگر ڈسٹری بیوٹر درست انداز سے کتاب کی تقسیم کرے تو بیس ہزار سے زائد کتابیں فروخت ہوسکتی ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ‘میری کتاب ”پیار کا پہلا شہر“کے اب تک 76ایڈیشن شائع ہوچکے، اگر میں لکھاری نہیں ہوتا تو  تو صرف ایک قاری ہی ہوتا کیونکہ میں کتاب کے بغیر نہیں رہ سکتا‘۔

مزید پڑھیں: عالمی اردو کانفرنس: ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

نامہ نگار کا کہنا تھا کہ ’میں اکثر ادبی تقاریب میں خود جاتا ہوں جبکہ زیادہ پرگراموں میں مجھے مدعو بھی کیا جاتا ہے، پہلے تو دعوت نامہ دینے والوں سے میں خود ہی معذرت کرلیتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ میں 80 سال کا ہورہا ہوں اس لیے مجھے زیادہ نہ بلایا کریں، یہ بات سن کر وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھیں آئندہ سال کس نے دیکھا ہے ہم ہوں یا نہ ہوں لہٰذا آپ تقریب میں شرکت ضرور کریں، میں ان کے اصرار پر سمجھ جاتا ہوں کہ وہ یہ بات خود کے لیے نہیں بلکہ مجھے ہی مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں‘۔

مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ پانی، پرندے اور موت یہ تینوں موضوع میرے ناولوں کے لازمی جز ہیں کیونکہ میں موت کے بہت قریب سے کئی بار گزر چکا ہوں۔

اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’ایک بار مجھے حالات غنودگی میں اسپتال لے جایا جارہا تھا تو میں نے دیکھا کہ سامنے میری والدہ دوپٹہ اوڑھے کھڑی مجھے دیکھ رہی ہیں، میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تجھے دیکھنے آئی ہوں تب مجھے تسلی ہوئی کہ میری زندگی ابھی باقی ہے کیونکہ اگر یہ میری زندگی کا آخری سفر ہوتا تو میری ماں مجھ سے کہتی کہ میں تجھے لینے آئی ہوں‘۔

مستنصر حسین تارڑ نے مزید بتایا کہ میں برطانیہ سے روس اُس دور میں پہنچا جب وہاں غیر ملکیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر انقلابِ روس کے بعد مقامیوں نے مہمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میری تصانیف کے کئی حصے اور تحریریں ماسکو کے مختلف کالجوں کے نصاب میں شامل ہیں اور طالب علم ان سے استفادہ بھی کررہے ہیں‘۔

’ماسکو میں پاکستان دو باتوں کی وجہ سے مشہور ہے ایک فیض کی شاعری اور دوسری میری نثر نگاری‘۔

اس موقع پر بھارت سے آئے ہوئے ممتاز دانشور اور نقاد شمیم حنفی نے مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش بختی ہے کہ جن لوگوں سے میرا 45سال پرانا ساتھ ہے اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، میں نے جب مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں ”نکلی تیری تلاش میں“ اور ”فاختہ“ پڑھیں تو میں ان کا کا دیوانہ ہوگیا کیونکہ مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو آسمان سے زیادہ زمین سے جُڑے ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’تارڑ صاحب کا ناول ”بہاﺅ“ بھارت میں بھی بہت مشہور ہے‘۔

انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان کی نجات کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان دوست ہو، نہ جانے انسان نے نفرت کرنے کے لئے اتنے سارے راستے کیسے تلاش کرلیے، روس نے انقلاب کے بعد بڑا ادب تو پیدا نہیں کیا مگر وہاں پر قارئین کی خاصی بڑی تعداد ضرور پیدا ہوئی، ماسکو اور روس کے قارئین ادیبوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ضیاءالحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ کسی بھی تخلیق کار کی گفتگو کو ہم اس کے کام کے حوالے سے پرکھتے ہیں مگر قاری اس کو تخلیقی عمل سے باہر رہتے ہوئے دیکھتا ہے، ادب میں تارڑ صاحب کا مقام بہت بڑا ہے انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگرمیں سمجھتا ہوں کہ ناول نگاری میں ان کی شہرت بہت زیادہ ہے۔

اس موقع پر مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”منطق الطیر“ کا اجراء بھی کیاگیا۔  اجلاس میں معروف نقاد و ادیب شمیم حنفی اور ڈاکٹر ضیاء الحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت کے حوالے سے بھی گفتگو کی جبکہ اقبال خورشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔        

Comments

- Advertisement -