اتوار کے روز لاہور کے حلقہ این اے 120 کا انتخابی معرکہ منعقد ہونے جارہا ہے قومی اسمبلی کی یہ نشست سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاناما کیس میں نا اہلی کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی۔
این اے 120 لاہور شہر کے قلب میں واقع ایک وسیع و عریض حلقہ ہے اور سابق وزیراعظم کی نا اہلی کے بعد ملکی منظرنامے پر سب سے زیادہ زیر گفتگو موضوع بھی یہی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 120 کے ضمنی انتخابات کے لیے 17 ستمبر کا دن مقرر کیا ہے اورمسلم لیگ ن کی جانب سے بیگم کلثوم نوازاور تحریکِ انصاف کی جانب سے ڈاکٹر یاسمین راشد اس نشست کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے فیصل میر میدان میں ہیں جبکہ 19 آزاد نمائندوں سمیت کل 29 امید وار اس نشست کے لیے میدان میں ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں سابق وزیراعظم نواز شریف 91 ہزار چھ سو چھیاسٹھ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔
آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں لاہور کے اس حلقے کی انتخابی تاریخ پر جس سے اندازہ ہوگا کون سی جماعت یہاں عموماً فاتح رہی ہے۔
الیکشن 2013
مسلم لیگ ن کے رہنما اور پاناما کیس میں ناا ہل ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف یہاں سے 91 ہزار چھ سو چھیاسٹھ ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے‘ ان کے مدمقابل تحریکِ انصاف کی امید وار ڈاکٹر یاسمین راشد 52 ہزار تین سو اکیس ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار زبیر کاردار محض چھبیس سو چار ووٹ لے سکے۔
الیکشن 2008
مسلم لیگ ن کے بلال یاسین 65 ہزار نو چھیالیس ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر نے 24 ہزار تین سو اسی ووٹ لیے۔ پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے طاہر ضیا 4 ہزار دو سو ستر ووٹ حاصل کرسکے۔
الیکشن 2002
سنہ 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف کے زیرِ نگرانی ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد پرویز ملک 33 ہزار سات سو اکتالیس
ووٹ لےکر فاتح قرار پائے جبکہ پیپلز پارٹی کے الطاف احمد قریشی نے 19 ہزارچار سو تراسی ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ ق کے امیدوار میاں اشرف 15 ہزار پچاسی ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔
پہلے یہ حلقہ ملتان میں ہوا کرتا تھا‘ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی جانے والی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں یہ حلقہ لاہور کے دوسابقہ حلقوں( این اے پچانوے اور این اے چھیانوے) کے علاقوں کر ملاتشکیل دیا گیا۔
الیکشن 1997
این اے 95 سے مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف 50 ہزار پانچ سوبانوے ووٹ لے کرفاتح قرار پائے تھے تاہم انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی اور ان کی جگہ انہی کی جماعت کے محمد پرویزملک یہاں سے جیتے۔
دوسری جانب این اے 96 سے میاں محمد شہباز شریف نے 47 ہزار چھ سو چودہ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تاہم انہوں نے بھی یہ نشست خالی کردی اور ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن ہی کے امیدوار کامل علی آغا فاتح قرار پائے۔
الیکشن 1993
این اے 95 سے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف 57 ہزار نو سو انسٹھ ووٹ لے کر نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے تاہم انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی اور ان کی جگہ انہی کی جماعت کےاسحاق ڈار یہاں سے جیتے۔
دوسری جانب این اے 96 سے میاں محمد شہباز شریف نے 55 ہزار آٹھ سو سرسٹھ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تاہم انہوں نے بھی یہ نشست خالی کردی اور ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مخدوم جاوید ہاشمی نے کامیابی حاصل کی۔
الیکشن 1990
این اے 95 سے اس وقت اسلامی جمہوری اتحادی کے پلیٹ فار م سے میاں نواز شریف نے 59 ہزارنو سو چوالیس نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ دوسری جانب این اے 96 سے میاں محمد شہباز شریف نے 54 ہزار پانچ سو چھ ووٹ لے کراسلامی جمہوری اتحادی کے پلیٹ فار م سے الیکشن لڑا اورکامیابی حاصل کی۔
الیکشن 1988
سابق ملٹری صدر ضیا الحق کے طیارہ حادثے کے فوری بعد ہونے والے انتخابت میں این اے 95 سےاسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے میاں نواز شریف 49 ہزار تین سو اٹھارہ ووٹ لے کر یہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے‘ تاہم انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی اور ان کی جگہ میاں اظہر یہاں سے فاتح قرار پائے۔
دوسری جانب این اے 96 سے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے جہانگیربدر 63 ہزار تین سو اڑسٹھ ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے ‘ انہوں نے آئی جےآئی کے سلمان بٹ کو شکست دی تھی۔
الیکشن 1985
سنہ 1985 میں سابق ملٹری صدر ضیاالحق کے زیرِ اثر ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں این اے 95 سے میاں شمیم حیدر فاتح قرار پائے جبکہ این اے 96 سے ملک سرفراز احمد نے کامیابی حاصل کی۔
الیکشن 1977
این اے 95 سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے محمد عارف اعوان قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ این اے 96 سے پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما شمیم حیدر کامیاب قرار پائے۔
الیکشن 1972
این اے 95 سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد صادق فاتح قرار پائے تھے جبکہ این 96 سے راؤ خورشید علی خاں نے کامیابی حاصل کی تھی۔
ان انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حلقہ پیپلز پارٹی کا تھا جہاں سے مسلم لیگ ن نے ان کا صفایا کردیا‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کل ہونے والے انتخابات میں یہاں کے عوام کس جماعت پر اپنے اعتماد کا اظہا رکرتے ہیں۔