تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

‘یہ مجھ کو ایک سستا نسخہ نظر آیا…’ ایک قصّہ گو کی باتیں

ادب کی دنیا میں کتابوں کا مطالعہ، جیّد اور کہنہ مشق اہلِ قلم سے گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ نئے قلم کار ان کے ادبی نظریات اور فکر سے واقف ہوتے ہوئے ان کے تجربات سے استفادہ کرسکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں‌ کہ خالص اور زندہ رہنے والا ادب کیا ہے، ایک اچھی تحریر کیا ہوتی ہے اور کیسے لکھنا چاہیے۔

یہاں‌ ہم نیّر مسعود جیسے اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار کی گفتگو نقل کررہے ہیں جو باذوق افراد اور نوجوان قلم کاروں کی توجہ حاصل کرے گی۔ نیّر مسعود ان ادیبوں میں سے تھے جو ادبی دنیا میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ وہ افسانہ، تحقیق، تنقید اور تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے۔ ملاحظہ کیجیے۔

” اب میرے جو پسندیدہ افسانہ نگار اُردو کے ہیں، وہ یوں ہیں کہ سب سے زیادہ تو مجھ کو غلام عباس صاحب پسند ہیں۔ پھر حیات اللہ انصاری ہیں۔ اس کے بعد اپنے زمانے کے، یعنی جو معاصرین ہیں، ان میں بہت لوگ ہیں، انتظار حسین کا سب سے پہلے نام آئے گا۔ لیکن تأثر جن سے میں نے قبول کیا ہے تو وہ میرا خیال ہے کہ غلام عباس کا ہونا چاہیے، اس لیے کہ میں نے اس طرح پڑھا ہے جیسے کسی استاد کی چیز پڑھی جائے اور اس طرح کہ گویا اس سے سیکھنا چاہیے، غلام عباس سے کہ کہانی کس طرح بیان کی جائے۔

پھر باہر والوں میں کافکا اور پو اور ایملی برانٹی اور دوستوئیفسکی ہیں۔ تو ان میں بھی ایملی برانٹی اور دوستوئیفسکی کے بارے میں تو یہ محسوس ہوا کہ ان کی پیروی نہیں ہوسکتی، کسی بھی طرح سے ان کا اثر قبول نہیں کیا جاسکتا، ان کے ہاں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے کہ دوسرا اس کو اپنا سکے۔

کافکا اور پو کے ہاں نسبتاً یہ محسوس ہوا کہ گویا بطور درسی کتاب کے پڑھا جا سکتا ہے۔ تو اب جان کر ظاہر ہے کہ میں نے کوشش نہیں کی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا اثر مجھ پر پڑا ہو گا۔ اس لیے کہ ان کو پڑھ کر یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ اس طرح کا لکھا جائے کہ کچھ ان چیزوں کی جھلک آ جائے اس میں۔

اچھا، خود عظیم بیگ چغتائی اور رفیق حسین، جن پر آپ نے بہت اچھا مضمون لکھ دیا ہے، ان کے ہاں مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ لوگ مدرس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے آدمی سیکھ سکتا ہے کہ افسانہ کس طرح لکھا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ باقاعدہ کوشش کسی کی پیروی یا نقالی کی نہیں کی ہے، لیکن یہ چوں کہ ماڈل اپنے ذہن میں تھے، اس لیے ان کا اثر کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہو گا۔ کوشش بہرحال، جیسے سب کرتے ہیں کہ مختلف لکھا جائے، جیسے افسانے عام طور پر لکھے جا رہے ہیں، ویسے نہ لکھیں۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ افسانے اچھے نہیں تھے۔ اس نظر سے بھی بہت افسانے پڑھے ہیں میں نے کہ کیسے نہ لکھا جائے۔ بلکہ زیادہ۔

حالانکہ ذہن میں زیادہ عیب جوئی نہیں ہے، لیکن افسانے بھی اور شاعری بھی، ان کو پڑھنے میں گویا ان کی خوبیوں سے زیادہ توجہ اس پر رہتی ہے کہ کیا چیز اس میں گڑبڑ ہو گئی جس کی وجہ سے افسانہ خراب ہو گیا، یا کس طرح اور بہتر ہو سکتا تھا۔ تو یہ منفی تعلیم تو خیر بہت سے افسانوں سے حاصل کی ہے، اور ماشاء اللہ آج کل بھی اس قسم کے افسانے لکھے جا رہے ہیں (ہنسی) لیکن مثبت اثر اگر کسی کا ہے تو وہ خاص طور پر ہمارے غلام عباس کا یقیناً ہونا چاہیے۔ یا پھر اپنے اور پرانے لکھنے والوں میں مرزا رسوا ہیں جیسے۔ ان کا بھی مجھ کو یہی محسوس ہوا کہ آدمی اگر ان کو غور سے پڑھے تو پھر وہ اچھا لکھ سکتا ہے۔

زبان بھی اور واقعات کو بیان کس طرح کیا جائے۔ اصل تو یہی ہے کہ قصہ بیان کرنا ہی اصل فن ہے، جو موضوع ہے اس کے لحاظ سے کون سا اسلوب اختیار کیا جائے۔ اس کی طرف میں نے زیادہ توجہ بھی رکھی۔ اب کچھ چیزیں جو ان لوگوں کی پیروی کا نتیجہ نہیں ہوں گی، کہ مثلاً اب اضافت کا استعمال تقریباً نہیں ملے گا آپ کو میری کہانیوں میں۔ واؤ عطف کا بھی استعمال بہت کم ملے گا۔ لیکن اس کو لازمہ نہیں بننے دیا کہ گویا اپنے اوپر دروازہ بند کر لیا کہ اضافت کسی صورت استعمال نہیں کریں گے۔ تو اضافتیں مل جائیں گی، لیکن بہت کم ملیں گی۔ محاورے سے بھی بہت عمداً گریز کیا ہے، اور میرا خیال ہے کہ کوئی محاورہ نہیں ہے ان کہانیوں میں۔ لیکن ہوں گے ضرور۔ اس کی بہرحال کوشش کی ہے کہ کوئی ایسا محاورہ نہ ہو۔ ”جیسے آگ برس رہی تھی“، ”موسلا دھار پانی برس رہا تھا، یہ محاورے نہ استعمال کیے جائیں۔ یہ مجھ کو ایک سستا نسخہ نظر آیا زبان میں تھوڑی سی اجنبیت پیدا کرنے کا۔

اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ یہ افسانے اصلاً ترجمہ ہیں کہیں اور سے، ”مار گیر“ پر تو باقاعدہ ڈاکٹر محمد عقیل نے خط لکھ کر پوچھا کہ یہ آپ نے خود لکھا ہے یا کہیں سے ترجمہ کیا ہے۔ تو وہ سبب وہی تھا کہ چونکہ اس میں محاورے نہیں تھے تو زبان تھوڑی سے اجنبی معلوم ہونے لگی۔ اور اضافت وغیرہ…. مجھ کو یہ محسوس ہوا کہ فارسی آمیز زبان ہمارے افسانوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ بھی خیال غلط ہے ،اضافت کے ساتھ بھی افسانہ لکھا جاتا ہے۔ لیکن مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ اضافتیں اور باقاعدہ ادبی زبان استعمال کی جائے گی تو افسانہ مجروح ہو جائے گا، کسی طرح۔ یا پھر یہ سمجھ لیجیے کہ میں لکھوں گا تو افسانہ مجروح ہو جائے گا، یوں سمجھ لیجیے کہ افسانے کی کمزوری ہوگی۔

لیکن یوں اصولی طور پر میں اس کے خلاف نہیں کہ اضافت اور محاورے افسانے میں استعمال ہوں۔ بہت سی صورتوں میں ظاہر ہے کہ محاورے کے بغیر چارہ نہیں ہو گا، خاص طور پر اگر آپ مکالمہ لکھ رہے ہیں، اور وہ مکالمہ وقت کے کسی فریم کے اندر ہے، تب تو محاورہ ضروری ہے۔ لیکن ان موقعوں پر بھی میں نے محاورے سے گریز کیا ہے۔ کچھ شاید یہ سبب بھی ہو جس کی وجہ سے آپ نے فرمایا کہ گویا کسی مخصوص زمان و مکان میں ان کہانیوں کو فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ زبان کے ذریعے سے اس طرح کا کوئی اشارہ مَیں نہیں دینا چاہتا کہ یہ فلاں زمانے کا آدمی بول رہا ہے۔“ (آصف فرخی سے گفتگو)

لکھنؤ کے باسی نیّر مسعود کئی سال تک فالج کے مرض میں مبتلا رہے۔ وہ 24 جولائی 2017ء کو طویل علالت کے بعد وفات پا گئے اور لکھنؤ ہی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

Comments

- Advertisement -