تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

"یہ نصیر ترابی آخر ہے کون؟”

نئے سال کے آغاز پر نصیر ترابی نے دنیا چھوڑ دی، حیدرآباد دکن کے نصیر ترابی علم و ادب کی دنیا میں ممتاز تھے شاعر، نقّاد اور ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے نام وَر تھے۔

انھوں نے معروف خطیب اور عالمِ دین علامہ رشید ترابی کے گھر 15 جون 1945ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان کراچی آگیا جہاں نصیر ترابی تعلیم و روزگار کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔

گزشتہ روز انتقال کرجانے والے نصیر ترابی 60 کی دہائی میں جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ علمی و دینی گھرانے سے تعلق تھا۔ گھر پر علم و ادب کے رسیا و نام ور، سیاست و سماج کے قد آوروں کی آمد و رفت رہتی تھی اور اسی ماحول میں‌ انھوں نے تربیت پائی اور بعد میں علم و ادب ہی کو اپنی پہچان اور حوالہ بنایا۔ نصیر ترابی کا شعری مجموعہ ’عکسِ فریادی’ ، نعتیہ مجموعہ ’لاریب’، لسانیات سے متعلق کتابیں ‘شعریات’ اور ‘لغت العوام’ شایع ہوچکی ہیں۔

معروف خاکہ نگار ممتاز رفیق کو نصیر ترابی کی رفاقت نصیب ہوئی تو انھوں نے ‘بانکے ٹانکے’ کے عنوان سے ان کا خاکہ لکھا جس سے چند پارے ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ نصیر ترابی کے فن اور ان کی زندگی کی جھلکیاں ہیں۔

یہ نصیر ترابی آخر ہے کون؟ اپنی تنہائی میں مست الست ایک آدمی، جس کا بڑا پن بونوں کے اس ہجوم میں کہیں ادھر اُدھر ہو گیا ہے۔

ایک تازہ کار شاعر جسے اپنے ڈھب سے زندگی کرنے کی للک گھیر گھار کر ایک ایسے گوشے میں لے آئی ہے جہاں اُسے اپنی بازگشت کے سوا کچھ اور ذرا کم سنائی دیتا ہے۔ ایسے میں کیا عجب اگر کوئی نامانوس دستک، اُس کی فراخ پیشانی پر ناگوار سلوٹوں کا جال سا بُن دیتی ہے۔ ماضی کے دریچوں سے جھانکتی پرچھائیاں اور خوش سواد سودائیوں کا انبوہ اُسے بے کل رکھتا ہے۔ اس مردِ عجیب کی خود اختیاری تنہائی، اُس میں زندہ رہنے کی ترنگ کو تازہ دَم رکھے ہوئے ہے۔

نصیر ترابی ایک نفیس اور کم یاب چیز ہے۔ ایک مشکل آدمی، جس کی توجہ حاصل کرنے کے بعد اُسے متواتر متوجہ رکھنا ایک الگ طرح کا قرینہ چاہتا ہے۔ پرائے لفظ یا لہجے کی معمولی سی اونچ نیچ اس ترازو کے اوزان بدل سکتی ہے، پھر نہیں معلوم کہ کیا پیش آجائے۔

نصیر کی زندگی ایک جاگتے ہوئے آدمی کا خوا ب ہے۔ ایک خوش قامت وجیہہ آدمی جس کی اُور ادھیڑ عمری لپکی چلی آتی ہے، لیکن اس گھمسان میں بھی میرا یار شخصی کشش کو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔ آج بھی اُس کی ذات میں وہ گم شدہ مہک زندہ ہے جب ایک سنگین دل کشی ہر دَم اُس کے ہم قدم رہا کرتی تھی۔

یہ آدمی اپنی اٹھان کے دنوں میں کیسا دکھائی پڑتا تھا؟ سر پر ڈیرہ ڈالے گہرے گھنے اندھیر ے میں ایک آڑی پگڈنڈی جو اُس کی کشادہ پیشانی پر دمکتے اُجالے کو مزید اُجال دیتی۔ اس خیرگی پر خطِ اختتام کھینچتی ہوئی دو سیاہ بھنویں اور اُن سے ذرا نیچے کو دوکٹاری آنکھیں، جن کی ہیرا پھیری کا کوئی توڑ نہ تھا اور چوکس کھڑی ناک کے نسبتاًچوڑے نتھنے، جنھیں دور سے سونگھ لینے کا وصف حاصل تھا، ترشے ہوئے ہونٹوں پر ایک بھید بھری مسکراہٹ، جس پر اس مسکراہٹ کا بھید کھلا وہ اپنے آپ سے جاتا رہا، گال جیسے موسم کا پہلا سرخ سیب، جسے دو برابر حصوں میں بانٹ لیا گیا ہو، نصیر ترابی کے اڑیل مزاج کی چغلی کھاتی ہوئی ٹھوڑی، جس پر ہلکا سا چاہِ زخنداں جو اپنا ایک الگ حسن رکھتا تھا، رنگت جیسے صحرا کی چاندنی جنگلی گلاب سے لپٹ کر چلی آ رہی ہو، کسی کھلاڑی کا سا چست بدن اور اس پر میرے یار کا ملبوساتی انتخاب کا ڈھنگ، جس کے لیے داخلی جمال کا رچاؤ ازبس لازمی ہوا کرتا ہے اور اُس پر سوا نصیر خیز کی جامہ زیبی جس نے جناح کالج کی راہداریوں سے کرکٹ کے میدان تک یکساں اُودھم مچا رکھا تھا۔

شاعری اُس کے لہو کی تال پر رقص کرتی ہے اور لفظ تو میرے یار نے جیسے اپنے کر چھوڑے ہیں۔ جب جس لفظ کو چاہتا ہے، ایک نئی معنوی چھوٹ کے ساتھ جلوہ کر دکھاتا ہے اور شاعری ہی کا کیا مذکور نصیر کی نثر بھی اپنا ایک الگ تیور رکھتی ہے۔ جن حرف شناسوں نے نصیر کے شخصی مضامین پڑھ، سن رکھے ہیں وہ جان چکے ہیں کہ اگر کسی کو لفظ پر تصرف حاصل ہو جائے تو فقروں کا جادو کیسے سر چڑھ کے بولتا ہے۔

نصیر کے ابتدائی دنوں نے جس رچاؤ کے ساتھ جو ترتیب و تہذیب پائی اُس میں اس چوکھٹ کی حاضری بھرنے والوں کا بھی اہم حصہ تھا۔ علامہ رشید ترابی کے وسیع دسترخوان پر منتخب اکابر مجتمع ہوتے۔ نوعمر نصیر اپنے بابا کے احباب کی چاکری پر چوکس رہتا۔ طعام سے قبل سلفچی میں ہاتھ دھلوانا اور بعد از طعام اُن کی جوتیاں سیدھی کرنا نصیر کی ذمہ داری ہوتی۔

علامہ کے دستر خوان پر ہمیشہ ایک مکالمہ گرم رہتا۔ نصیر کے لیے ان مکالماتی معرکوں میں سیکھنے اور سمجھنے کے لاکھ پہلو تھے۔

نصیر ترابی کے جن دیرینہ دوستوں سے میں واقف ہوں، اُن میں عبیداللہ علیم ،اطہر نفیس، نگار صہبائی، احمد عمر شریف اور نیر سوز شامل ہیں۔ اُن میں سے نیر سوز اور احمد عمر شریف، نصیر کے جناح کالج کے ساتھی ہیں۔

نصیر ایک ذہین، حسین اور فطین آدمی تھا۔ جناح کالج سے الحسن تک وہ جہاں بیٹھتا، مجلس کا سرخیل ہو جاتا۔ یہ نصیر کے بابا کی سرفرازی اور اس کی سرسبزی کا زمانہ تھا۔

میرے یار سے لوگوں کی مرعوبیت کے کتنے ہی جواز تھے، کچھ اُس کی خاندانی وجاہت، بعض ذاتی جاذبیت اور اکثر اس کے زورِ کلام اور سخن کاری کے اسیر تھے، لیکن نصیر ترابی ریوڑ میں بھٹک جانے والا آدمی نہیں ہے۔ اس میں اتنا دماغ کہاں کہ ہر ایرے غیر ے کا بوجھ ڈھوتا پھرے۔

وہ سنجیدہ رکھ رکھاؤ کا ایک لیے دیے رہنے والا آدمی ہے جسے بدسلیقگی کو چھوتا ہوا جملہ گوارا نہ ہو وہ ایک پورے بد مذاق کو کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ اس حوالے سے نصیر کی ترشی بلکہ درشتی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ نصیر کے بعض لوگوں سے روا رکھے جانے والے کھردرے رویے سے یہ تأثّر عام ہو گیا کہ وہ ایک گھمنڈی ہے، حالاں کہ یہ محض ایک ایسے تخلیق کار کا طمطراق تھا جس کے تئیں عدم تخلیقیت اور بے روح ہونا تقریباً ایک جیسی بات تھی۔ وہ اپنی محفل اور سنگیتوں کو اس آزار سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔

یہ میرے یار کی خوش نصیبی سے بڑھ کے اہل مندی تھی کہ اُسے جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، زیڈ اے بخاری، مصطفیٰ زیدی، سبطِ حسن اور عزیز حامد مدنی ایسے نام وروں نے اپنی محفلوں میں قبول و مقبول کیا۔

میرا یار کلاسیکی ادب کا گہرا مطالعہ اور صحبت یافتہ ذوق رکھتا ہے، جب وہ اپنی چوپال یا کسی چائے خانے میں ایک انہماک کے ساتھ اپنی دائیں بھوؤں کو انگشتِ شہادت سے کاڑھتے سنوارتے ہوئے سرگرمِ کلام ہو تو غیبت کے چٹخارے کے ساتھ اُس کی گفتگو میں گُھلی علم و آگہی کی آنچ، جملوں میں بہتی گرماہٹ اور معنوی گیرائی کی مہکار، سماعتوں کو ایک نئے قسم کی سمعی فضا سے مشک بار کرتی ہے۔

نصیر اب ادھیڑ عمری کو آ لگا ہے لیکن اب بھی وہ پوری توانائی اور آسودگی سے زندگی کرتا ہے، اندر کی بے کلی اس سے بالکل الگ نوعیت کا قصہ ہے۔ اب میر ا یار خاموش اور سب سے الگ تھلگ اپنی تخلیق کی ہوئی دنیا میں اس طور صبح کو شام کرتا ہے جس کا اُس نے زندگی کے ابتدائی دور میں سوچ رکھا تھا، اس مہکتی بہکتی تنہائی میں نصیر کو اپنی پسند کا ماحول میسر ہے۔

نصیر کی شخصی بُنت میں ایسے بانکے ٹانکے استعمال ہوئے ہیں کہ ہر چلتی پھرتی آنکھ اس تانے بانے کی اُدھیڑبن کا آسانی سے احاطہ نہیں کر سکتی۔ نصیر ایسے زندہ آدمی کا آغاز لکھنا آسان سہی لیکن اختتام کرنا مشکل ہوتا ہے اور سرِدست مجھے یہی مشکل درپیش ہے۔

Comments

- Advertisement -