تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

وزیراعظم شہباز شریف آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے اہم ملاقات کریں گے

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف اور چیف جسٹس سپریم...

مسلم لیگ والے کانگریسی وزارت کے خلاف کیوں ہوئے؟

"سیاسی یادوں میں میری سب سے پہلی یاد لکھنؤ کا الیکشن ہے جو شاید 1935ء میں ہوا تھا۔

مسلم لیگ، کانگریس اور جمعیتُ العلما کے متفقہ نمائندے مولانا شوکت علی تھے جن کا مقابلہ سر شفاعت احمد خاں سے تھا۔ مولانا شوکت علی جیت گئے اور سب نے کہا کہ یہ برٹش گورنمنٹ کی بہت بڑی شکست ہوئی۔ تھوڑے دنوں کے بعد یو پی میں کانگریسی حکومت بن گئی۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہوئیں جن سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ کانگریس سے ناراض ہو گیا۔ اب تو یہ باتیں سب کو معلوم ہو گئیں لیکن اس وقت بہت سے لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ اب تک تو سب مسلمان کانگریس کے ساتھ تھے، اب ایسی کیا بات ہوئی کہ دونوں میں اختلاف ہو گیا۔

اس اختلاف کا مظاہرہ علی گڑھ میں بھی ہونے لگا۔ اس وقت تک زیادہ تر پڑھے لکھے لڑکے (علی گڑھ والوں کی زبان میں) کانگریسی تھے، مثلاً خواجہ احمد عباس، حیات اللہ انصاری، اسرار الحق مجاز، علی سردار جعفری، چچا صدیق (صدیق احمد صدیقی) وغیرہ۔ ہم نے اور آپ نے تو ان میں سے صرف چند کو علی گڑھ میں دیکھا تھا اور وہ اس گروہ کے آخری لوگ تھے، یعنی مجاز، جاں نثار اختر اور سلطان نیازی۔ اس کے بعد جب مسلمان کانگریس سے خفا ہوئے تو علی گڑھ میں ایک نئی ہوا چلنے لگی۔

جناح صاحب کا علی گڑھ آنا تو یاد ہو گا۔ کیسی بھیڑ تھی اسٹیشن پر اور کیسے ریل کی پٹری پر پٹاخے رکھے گئے تھے کہ جب ان پر سے کالکا میل کا انجن گزرا تو معلوم ہوتا تھا کہ جناح صاحب کے استقبال میں توپوں کی سلامی دی جا رہی ہو۔
جناح صاحب کی یہ آمد تو شاید 40ء کے بعد کی تھی۔ اس سے پہلے علی گڑھ میں فضا کا بدلنا مجھے ایک پوسٹر کی وجہ سے یاد ہے جو یومِ نجات کے سلسلے میں نکالا گیا تھا۔

جب 39ء میں کانگریسی حکومت نے استعفیٰ دیا تو مسلم لیگ کی طرف سے سارے صوبے میں یومِ نجات منایا گیا۔ حالاں کہ اس وقت میری عمر دس برس کے قریب تھی، لیکن گھر کے سیاسی ماحول کی وجہ سے کچھ کچھ سیاست میری سمجھ میں آتی تھی۔ مجھے اس کا بڑا دکھ ہوا کہ ایک ہندوستانی حکومت کے ختم ہونے پر کوئی جشن منایا جائے۔

ابھی چند برس پہلے مولانا آزاد اور چودھری خلیق الزّماں کی کتابیں پڑھ کر سمجھ میں آیا کہ آخر مسلم لیگ والے کانگریسی وزارت کے اتنا خلاف کیوں تھے۔ کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن جیتنے کے بعد وزارت کے متعلق ان کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں اور وہ سمجھے کہ اس معاملے میں کانگریس نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ بس اس کے بعد تو دلوں میں ایک کے بعد دوسری گرہیں پڑتی گئیں۔‘‘

(معروف شاعر اور ادیب نسیم انصاری کی یادداشتوں پر مبنی کتاب جوابِ دوستاں سے ایک پارہ)

Comments

- Advertisement -