اسلام آباد: سینئرقانون دان بابر اعوان نے کہاہے کہ پاناما کیس کے فیصلے میں اگر آرٹیکل 62 ، 63 لاگو ہوا تو پارلیمنٹ خالی ہوجائے گی تاہم جو ایماندار لوگ ہیں وہ بیٹھیں رہیں گے، نوازشریف کے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں اس لیے انہوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ممکن ہے وزیراعظم کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کردیں۔
اے آر وائی کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ جب نوازشریف وزیراعظم نہیں تھے تو اُن کے بچوں کا ذریعہ معاش کیا تھا؟ کیونکہ اُس وقت اُن کے بچے نابالغ اور زیرکفالت تھے اور وہ اپنا کاروبار نہیں بنا سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں جتنے بھی فیصلے آئے تو اُن کے فیصلے نظریہ ضرورت کے تحت کیے گئے تاہم اس بار لگتا ہے کہ عدالت فیصلہ کرنے سے قبل ہر چیز کو مدنظر رکھے گی کیونکہ پاناما کے معاملے پر سب سے مضبوط کیس طاہر القادری لے کر گئے تھے جس پر عدالت نے اُن سے پوچھا کے وہ کہاں رہائش پذیر ہیں۔
اثاثے چھپانے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عوامی عہدے دار اپنے اثاثہ جات چھپاتاہے، تو اس کا مطلب غلط بیانی ہوتی ہے ۔ کیا اس صورت میں کوئی شخص صادق اورامین رہے گا؟یہی باتیںآئین کے آرٹیکل62 اور 63 میں بھی موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے اثاثہ جات چھپاکررکھتا ہے۔ اور ظاہر ہونے کے بعد ان کوقبول کرے تو وہ مجرم تصور کیا جائے گا اور وہ 62 اور 63 کے دائرہ کار سے نہیں نکل سکتا۔
مکمل انٹرویو کی ویڈیو دیکھیں
بابر اعوان نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے پاناما کیس میں فریق نہ بن کر بہت بڑی غلطی دوہرائی جیسے انہوں نے 1985 کے انتخابات میں حصہ نہ لے کر کی تھی، ماضی میں عدالتوں کا رُخ لاڑکانہ کی طرف ہوتا تھا مگر اب ججز کے ریمارکس سے لگتا ہے کہ تختِ لاہور بھی احتساب سے بچ نہیں سکے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کا برگر یوتھ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا وہ باہر نکلے اور جو خود کو بڑے ہی نظریاتی کہہ رہے تھے وہ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ۔ اس کیس میں سوشل میڈ یا نے بھی اہم کردار ادا کیا اور تمام تر مشکلات کے باوجود مین اسٹریم میڈیا نے بھی جرات کا مظاہرہ کرکے عوام کے ساتھ کھڑے رہے ۔
کلبھوشن یادوو کے حوالے سے بابر اعوان نے کہا کہ ہمیں بھارت سے سبق لینے کی کوئی ضرورت نہیں مگر خبریں زیرگردش ہیں کہ نوازشریف کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کردیں گے کیونکہ اُن کے بھارت میں کاروبار ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر اس لیے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔