تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

نظم طباطبائی اور شرحِ دیوانِ‌ غالب

نظم طباطبائی کا نام اردو زبان و ادب میں کلامِ غالب کے شارح اور نئے انداز کی نظمیں کہنے والے شاعر کے طور پر ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ وہ اپنے دور میں عربی اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ آج نظم طباطبائی کی برسی ہے۔

ان کا نام سیّد حیدر علی اور نظمؔ تخلص تھا۔ نظم طباطبائی نے 1853ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک قابل اور باصلاحیت طالبِ علم تھے جس نے بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی ہی میں نظم طباطبائی کی علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگانِ اودھ کے اتالیق مقرر ہوگئے۔ بعد میں نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے اور پھر سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی دور میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا جہاں نظمؔ کی قابلیت اور علمی صلاحیتوں کی بناء پر انھیں ادبی ناظر کی حیثیت سے ملازمت ملی۔ وہ تراجم پر نظرِ ثانی کرتے اور ان کی نوک پلک سنوارتے۔

نظم طباطبائی کی شاعری قدیم اور جدید خیالات کا مجموعہ ہے۔ غزل گوئی سے زیادہ دل چسپی نہیں تھی مگر روزمرّہ محاوروں کے استعمال کا ان کی غزلوں میں اہتمام کیا گیا ہے۔ ان تخلیقات میں دیوانِ طباطبائی، اصطلاحاتِ غالب اور شرح دیوانِ اردوئے غالب شامل ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ شرحِ دیوانِ غالب ہے اور اس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ نظم طباطبائی نے انگریزی شاعری کے منظوم اردو تراجم بھی کیے۔ انہوں نے مشہور انگریزی شاعر تھامس گرے کی نظم کا اردو ترجمہ گورِ غریباں کے نام سے کیا جو ایک کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنام مر گئے۔ نظم کی زبان سادہ ہے مگر اس میں غضب کی دل کشی ہے۔ تشبیہات اور استعارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔

نظم طباطبائی آج ہی کے دن 1933ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

Comments

- Advertisement -