تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

ندا فاضلی: ‘گھر سے نکلے پاؤں…’

ہر چھوڑا ہوا شہر تھوڑے عرصے تک جانے والے کا انتظار کرتا ہے، لیکن جانے والا جب لمبی مدّت تک نہیں آتا تو شہر ناراض ہو کر شہری سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا!

یہ اردو اور ہندی کے مقبولِ عام شاعر ندا فاضلی کی یادوں پر مبنی تحریر کی ابتدائی سطور ہیں۔ انھوں نے ہندی فلموں کے لیے کئی مشہور نغمات بھی لکھے اور ایک نثر نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔ اس میدان میں وہ مکالمہ نویس اور صحافی کے طور پر زورِ قلم کو آزماتے رہے تھے۔ ندا فاضلی کے اس مختصر تعارف کے بعد ان کی مکمل تحریر پڑھیے۔ وہ لکھتے ہیں:

سن پینسٹھ میں گوالیار چھوڑ کر روزی روٹی کی تلاش میں ممبئی گیا۔ وہاں چاروں جانب سمندر اور آسمان چھوتے ناریل کے درختوں سے دوستی کرنے میں کافی وقت لگ گیا۔ جب دوستی ہو گئی تو بمبئی نے مجھے وہ سب کچھ دیا جو آج میری پہچان ہے۔ لیکن ان میں وقت کا ایک بڑا حّصہ گزر گیا۔ گزرے ہو‏‏ئے وقت کے اس درد کو میں نے ایک غزل کے قالب میں ڈھالا ہے اس کے دو شعر یوں ہیں۔

کہیں چھت تھی، دیوار و در تھے کہیں، ملا مجھ کو گھر کا پتہ دیر سے
دیا تو بہت زندگی نے مجھے، مگر جو دیا وہ دیا دیر سے

ہوا نہ کوئی کام معمول سے، گزارے شب و روز کچھ اس طرح
کبھی چاند چمکا غلط وقت پر، کبھی گھر میں سورج اگا دیر سے

بمبئی میں جب سر پر چھت آئی اور روٹی پانی سے فراغت پائی تو چھوڑا ہوا وہ نگر یاد آنے لگا جو بچپن سے جوانی تک میرے شب و روز کا ساتھی تھا۔ مگر میری لمبی غیرحاضری سے ناراض ہوکر وہ اب وہاں نہیں تھا جہاں میں اسے چھوڑ کر گیا تھا۔

گھر کو کھوجیں رات دن، گھر سے نکلے پاؤں
وہ رستا ہی کھو گیا جس رستے تھا گاؤں

مجھے بھی میرا گاؤں پھر کبھی نہیں ملا۔ ملتا بھی کیسے؟ جن کے پاس وہ اپنا پتہ ٹھکانا چھوڑ کر گیا تھا ان میں کچھ بزرگ پیڑ تھے، کچھ راستوں کے موڑ تھے، ایک دو منزلہ عمارت کی سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی تھی۔ اب ان میں کوئی بھی اپنی جگہ پر نہیں تھا۔ مگر وہ گوالیار جو میں نے جیا ہے وہ آج بھی میرے ساتھ ہے۔ یادوں کے روپ میں۔

ان یادوں کے دو روپ ہیں۔ ایک وہ جو میں نے دیکھا تھا یا جیا تھا، دوسرا روپ وہ تھا جس کے بارے میں میں نے بڑی عمروں کی زبانی سنا تھا یا کتابوں میں پڑھا تھا۔ اس دیکھے ہو‏ئے سنے ہوئے یا پڑھے ہوئے گوالیار کے بے شمار چہرے ہیں۔ ان میں ایک چہرہ ادب کا بھی ہے۔

گوالیار میں غزل کی شروعات، شاہ مبارک آبرو سے ہوتی ہے جو محمد شاہ کے زمانے کے شاعر تھے۔ وہ صوفی شیخ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں تھے۔ یہ وہ صوفی تھے جو مغل بادشاہ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک رتن تان سین کے بھی گرو تھے۔

تان سین کا مزار آج بھی غوث صاحب کے مزار کے پاس بھارت کے موسیقاروں کے لیے جائے عقیدت ہے۔ میں جب تک وہاں تھا املی کا ایک گھنا پیڑ اس مزار پر سایہ فگن رہتا تھا۔ موسیقی کے عاشق جب وہاں آ کر عقیدت کے پھول چڑھاتے تو ایک دو پتیاں اس پیڑ سے توڑ کر منھ میں رکھ لیتے تھے۔ ان کا یہ یقین تھا کہ املی کی ان پتیوں کو چبانے سے آواز میں مٹھاس پیدا ہوگی۔

پتہ نہیں اس عقیدت سے کتنوں کو فا‏ئدہ پہنچا لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ پیڑ جو کہ سیکڑوں کا یقین تھا آج سر سے پاؤں تک بے لباس ہے۔ زیادہ چاہت بھی کبھی دوسروں کی مصیبت بن جاتی ہے، اس درخت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کبھی جو چھتنار پیڑ تھا اب ان کٹے پیڑ کی طرح تھا، کبھی یہاں بگلے اور طوطے منڈلاتے تھے، اب ننگی شاخوں پر بیٹھے کوے کائیں کائیں فرماتے ہیں۔

ایک بار استاد حافظ علی خاں کے بڑے بیٹے سرود نواز مبارک علی خاں میرے ساتھ تھے۔ میں نے جب اس بابت ان سے بات کی تو انھوں نے کہا، یہ مزار کا ہی کرشمہ ہے کہ کوے جو صدیوں سے بے سرے مانے جاتے ہیں وہ یہاں آکر جو کائیں کائیں کرتے ہیں اس میں بھی لے اور سر جگمگاتا ہے۔

مبارک علی خاں موجودہ استاد امجد علی خاں کے بڑے بھائی تھے۔ جن دنوں میں گوالیار میں تھا ان دنوں وہ ایک علاقائی موسیقی کالج میں موسیقی کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ جب بھی ملتے تھے موسیقی پر کم ہی بولتے تھے۔ زبان و ادب پر زیادہ بات کرتے تھے۔ وہ اکثر مشاعروں میں جایا کرتے تھے اور اپنی جیب سے خرچ کر کے گوالیار کے اچھے شعراء کو بلاتے بھی تھے۔

ان دنوں کے شعراء میں ترقی پسندی کا رجحان غالب تھا۔ ان شاعروں میں شیو منگل سنگھ سمن، جاں نثار اختر، مکٹ بہاری سروج اور ویرندر سنگھ کے نام خاص ہیں۔ انہی میں ان شعرائے کرام کے نام آتے تھے جو ادب میں سیاست کے دخل کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ان میں دعا ڈبائیوی، ریاض گوالیاری، انور پرتاپ گڑھی اور دوسرے تھے۔

نظم لکھی بھی جاتی ہے اور سنی بھی جاتی ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو لکھتے تو اچھا ہیں مگر سنانے کے فن سے ناواقف ہوتے ہیں اور اس طرح جو کلام کاغذ پر لبھاتا ہے وہی سامعین کے درمیان آکر تھکا تھکا سا لگتا ہے۔ جاں نثار نرم لہجے کے اچھے رومانی شاعر تھے، ان کے اکثر اشعار اس زمانے میں نوجوانوں کو پسند آتے تھے، کالج کے لڑکے لڑکیاں اپنے محبّت ناموں میں ان کا استعمال بھی کرتے تھے جیسے:

دور کوئی رات بھر گاتا رہا
ترا ملنا مجھے یاد آتا رہا

چھپ گیا بادلوں میں آدھا چاند یا روشنی چھن رہی ہے شاخوں سے
جیسے کھڑکی کا ایک پٹ کھولے جھانکتا ہے کوئی سلاخوں سے

لیکن اپنی ممیاتی آواز میں لفظوں کو الاسٹک کی طرح کھینچ کر جب وہ سناتے تو لوگ تالیاں بجانے لگتے تھے۔ جاں نثار اپنی دھن میں آنکھیں موندے پڑھے جاتے تھے اور سامعین اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ اس معاملے میں سمن جی کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ صرف سناتے نہیں تھے، آواز کے اتار چڑھاؤ اور آنکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے وہ سماں باندھتے تھے کہ سننے والے ان کی شاعری سے زیادہ ان کے ڈرامائی انداز پر فدا ہوجاتے تھے۔ سمن جی کی اس ڈرامائی پیشکش کے سامنے اگر کوئی اور نام یاد آتا ہے تو وہ ہے کیفی اعظمی کا۔

کیفی اعظمی کو بھی قدرت نے سمن کی طرح شکل و صورت سے کافی پُرکشش بنایا تھا۔ لمبا قد اور بھاری صاف آواز کے ساتھ ان دونوں کو سننا، ان دنوں کی میری خوب صورت یاد ہیں۔ کیفی اعظمی بڑے بڑے ترنّم باز شاعروں کے ہوتے ہوئے اپنے پڑھنے کے انداز سے مشاعروں پر چھا جاتے تھے۔ ایک بار گوالیار کے میلہ منچ سے کیفی اعظمی اپنی نظم سنا رہے تھے

تجھ کو پہچان لیا
دور سے آنے، جال بچھانے والے

دوسری لائن میں ‘جال بچھانے والے’ پڑھتے ہوئے ان کے ہاتھ کا اشارہ گیٹ پر کھڑے پولیس والے کی طرف تھا۔ وہ بے چارہ سہم گیا۔ اسی وقت گیٹ کریش ہوا اور باہر کھڑی جنتا اندر گھس آئی اور پولیس والا ڈرا ہوا خاموش کھڑا رہا۔

بھیڑ کے اس ہنگامے کو بھی کیفی کی پاٹ دار آواز نے خراب نہیں ہونے دیا۔ بزرگوں کی زبانی سنا ہوا گوالیار کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ نارائن پرشاد مہر اور مضطر خیرآبادی گوالیار کے دو استاد شاعر تھے۔ مہر صاحب داغ کے شاگرد اور ان کے جانشین تھے۔ مضطر صاحب داغ کے ہم عصر امیر مینائی کے شاگرد تھے۔

دونوں استادوں میں اپنے استاد کو لے کر چپقلش رہا کرتی تھی۔ دونوں اپنے اپنے شاگردوں کے ساتھ مشاعروں میں آیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی تعریف نہیں کرتے تھے۔ مضطر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شعر اس طرح سناتے تھے کہ شعر تصویر بن جاتا تھا، مضطر نے شعر سنایا:

زمانہ روٹیوں پر فاتحہ مردوں کی دیتا ہے
ہمارے واسطے لایا ہے وہ شمشیر کے ٹکڑے

مضطر نے شعر اس طرح پیش کیا کہ مہر صاحب ساری رنجشیں بھول کر شعر سنتے ہی لوٹ پوٹ ہو گئے اور چیخ چیخ کر داد دینے لگے، مشاعرہ ختم ہونے کے بعد جب ان کے شاگردوں نے انہیں وہی شعر پھر سنایا تو وہ بولے کہ شعر واقعی برا ہے لیکن وہ کمبخت اس طرح سنارہا تھا کہ اچانک مجھے اپنی بیوی کی یاد آگئی جو گزشتہ کئی دنوں سے علیل تھی۔ نارائن پرشاد نے اس بحر میں جو غزل سنائی تھی اس کا مطلع یوں تھا:

ملے ہیں مجھ کومیرے خواب کی تعبیر کے ٹکڑے
مجھے بھیجے ہیں اس نے میری ہی تصویر کے ٹکڑے

مضطر جاں ثار اختر کے والد اور نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا تھے۔

Comments

- Advertisement -