تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

گوگول کا تذکرہ جو احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہا!

روسی ادب میں گوگول کا مقام یوں سمجھیے کہ دوستوفسکی نے کہا تھا ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

نکولائی گوگول کا وطن یوکرین ہے جو روسی سلطنت کا حصّہ رہا اور 1991ء میں‌ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہیں 1809ء میں نکولائی گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ سلطنتِ روس کا ایک ممتاز ادیب اور مشہور ناول نگار تھا جس کے زمانے میں سلطنت میں غلامی کا دور دورہ تھا اور عوام کے مختلف طبقات، زمین دار اور ان کے ساتھ کسان اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کے نشانے پر تھے۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھ دیا۔

وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد وفات پاگئے جو اس زمانے میں‌ تھیٹر سے منسلک تھے اور ایک ڈرامہ نگار تھے۔ اس کے چند اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ سے وابستہ تھے جس کے متاثر ہو کر اسے بھی لکھنے لکھانے اور اداکاری کا شوق پیدا ہوا۔

اسے حصولِ تعلیم کے لیے ہاسٹل میں داخل کروایا گیا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ آگیا اور سرکاری نوکری کا خواہاں ہوا، لیکن ناکام رہا اور پھر تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لیے گوگولائی نے اپنی گھر سے کچھ رقم چرائی اور جرمنی چلا گیا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور چوں کہ وہ لکھنے لکھانے کا آغاز کرچکا تھا، اس لیے اپنی کہانیوں کو کتابی شکل میں شایع کروانے کا اہتمام کیا۔ اسے یہ یقین تو نہیں تھا کہ یہ کہانیاں بہت زیادہ پسند کی جائیں‌ گی، لیکن کہانیوں کی اشاعت کے بعد اسے ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی۔ یہ تخلیقات 1831ء اور 1832ء میں‌ شایع ہوئیں‌ جو گوگول کے آبائی علاقے یوکرین سے متعلق تھیں۔

گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ میں پہچان بنانے کے بعد جب
1835ء میں‌ قزاقوں‌ پر ایک تاریخی ناول تاراس بلبا کی اشاعت کروائی تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور بعد میں اس ناول کو روسی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا۔ اگلے برس اس نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ اس پر وہ معتوب ہوا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا جسے شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسی عرصے میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار تصور کرنے لگا۔ اس مریضانہ کیفیت میں گوگول نے 1852ء میں‌ اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا اور اسی سال اپنے یوم پیدائش سے دس دن پہلے دنیا سے رخصت ہوگیا۔

آج گوگول کا یومِ وفات ہے۔ وہ اٹھارہویں صدی کا ایسا ادیب ہے جس نے اس وقت کی ادبی روایات سے انحراف کرتے ہوئے روزمرّہ زندگی کو اپنے زاویۂ نگارہ سے پیش کیا اور اپنی کہانیوں میں گہرے طنز اور مزاح کی وجہ سے مقبول ہوا۔ اس کی کہانیوں میں جو اثر پذیری ہے، اس کی بڑی وجہ گوگول کی حقیقیت نگاری ہے۔ گوگول کے بعد میں آنے والے اس سے بے حد متاثر ہوئے اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حقیقت نگاری کو اپنایا۔

Comments

- Advertisement -