ہفتہ, اکتوبر 12, 2024
اشتہار

جب منٹو کو یہ احساس ہوا کہ نور جہاں اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی!

اشتہار

حیرت انگیز

نور جہاں کو میں نے صرف پردے پر دیکھا تھا۔ میں اس کی شکل و صورت اور اداکاری کا نہیں، اس کی آواز کا شیدائی تھا۔ وہ کم عمر تھی۔ اس لیے مجھے حیرت تھی کہ وہ کیونکر اتنے دل فریب طریقے سے گا سکتی ہے۔

ان دنوں دو آدمیوں کا دور دورہ تھا۔ مرحوم سہگل کا اور نور جہاں کا۔ یوں تو ان دنوں خورشید چھائی ہوئی تھی، شمشاد کے بھی چرچے تھے مگر نور جہاں کی آواز میں سب کی آواز دب گئی۔ ثریا بعد کی پیداوار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سہگل اور ثریا اکٹھے فلم میں پیش ہوئے لیکن نور جہاں اور وہ دونوں الگ الگ رہے۔ معلوم نہیں، پروڈیوسروں کے دماغ میں ان دونوں کو یکجا کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا یا کسی اور وجہ سے پروڈیوسر ان کو ایک فلم میں کاسٹ نہ کرسکے۔ بہرحال مجھے اس کا افسوس ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اگر وہ دونوں آمنے سامنے ہوتے تو موسیقی کی دنیا میں نہایت خوشگوار انقلاب برپا ہوتا۔

نور جہاں سے میری پہلی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی۔۔۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ میں کئی برس تک بمبئی کی فلمی دنیا میں گزار کر چند وجوہ کی بنا پر دل برداشتہ ہوکر دہلی چلا گیا۔ وہاں پر میں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی۔ مگر یہاں سے بھی دل اچاٹ ہوگیا۔ بمبئی سے’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر نذیرلدھیانوی کے متعدد خطوط آئے کہ تم واپس چلے آؤ۔ ’خاندان‘ کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی یہاں آئے ہوئے ہیں اور میرے ہی پاس ٹھہرے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ تم ان کے لئے ایک کہانی لکھو۔

- Advertisement -

میں دہلی چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کرپس مشن فیل ہو چکا تھا۔ میں غالباً ۷ اگست ۱۹۴۷ء کو بمبئی پہنچا۔ شوکت سے میری پہلی ملاقات ۱۷ اڈلفی چیمبرز کلیئر روڈ پر ہوئی۔ جو دفتر بھی تھا اور رہائشی مکان بھی۔ بڑا بانکا چھیلا نوجوان تھا۔ گورا رنگ، گالوں پر سرخی، مہین مہین جون گلبرٹ اسٹائل کی مونچھیں، گھنگھریالے بال، لمبا قد، بہت خوش پوش، بے داغ پتلون، شکنوں سے بے نیاز کوٹ ٹائی کی گرہ نہایت عمدہ، چال میں لٹک، ہم پہلی ملاقات میں ہی خوب گھل مل گئے۔ میں نے اس کو بہت مخلص انسان پایا۔ میں دہلی سے اپنے ساتھ اپنے پسندیدہ سگریٹ یعنی کریون اے کا کافی اسٹاک لے کر آیا تھا۔ جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس لیے بمبئی میں یہ سگریٹ قریب قریب نایاب تھے۔ شوکت نے میرے پاس بیس پچیس ڈبے اور پچاس کے قریب ڈبیاں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔

ہم دونوں کا قیام وہیں 17 اڈلفی چیمبرز میں تھا۔ دو کمرے تھے جہازی سائز کے۔ ایک میں دفتر تھا، دوسرے میں رہائشی معاملہ۔ مگر رات کو ہم دفتر میں سوتے تھے۔ مرزا مشرف وغیرہ آجاتے تھے، وہ ہماری چارپائیاں بچھا دیتے تھے۔ جب تک شوکت وہاں رہا، بڑے ہنگامے رہے، کریون اے کے سگریٹ اور ناسک کی ہرن مارکہ وسکی جو بڑی واہیات تھی۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ شوکت’’خاندان‘‘ کے بعد گو بہت بڑا ڈائریکٹر بن گیا تھا۔ مگر لاہور سے بمبئی پہنچنے اور وہاں کچھ دیر رہنے کے دوران میں وہ سب کچھ خرچ ہو چکا تھا جو اس نے لاہور میں فلم کی ہنگامی اور اخراجات سے پر زندگی گزارنے کے بعد پس انداز کیا تھا۔ اور میرے پاس تو صرف چند سوتھے جو کہ ہرن مارکہ وسکی میں غرق ہوگئے۔

بہرحال کسی نہ کسی حیلے گزر ہوتا رہا۔ وہ وقت بہت نازک تھا۔ میں سات اگست کو وہاں پہنچا اور ۹ اگست کی صبح کو جب میں نے کہیں ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی تو لائن ’’ڈیڈ‘‘ یعنی مردہ تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کانگریسی لیڈروں کی گرفتاریاں چونکہ عمل میں آرہی تھیں، اس لیے احتیاطاً ٹیلی فون کا سارا سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا۔

گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور ابوالکلام آزاد وغیرہ سب گرفتار کر لیے گئے، اور کسی نامعلوم جگہ منتقل کر دیے گئے۔ شہر کی فضا بالکل ایسی تھی جیسے بھری بندوق۔ باہر نکلنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ کئی دن تک ہم ہرن مارکہ شراب پی کر اپنا وقت کاٹتے رہے۔ اس دوران فلم انڈسٹری میں بھی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ حالات چونکہ غیر یقینی تھے اس لیے کسی نئے فلم کی تیاری کون کرتا۔ چنانچہ جن لوگوں سے شوکت کی بات چیت ہورہی تھی، ایک غیر معینہ عرصے کے لئے کھٹائی میں پڑ گئی اور ہم نذیر لدھیانوی کے ہاں پکے ہوئے بدمزے کھانے کھا کر لمبی تان کر سوتے رہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے تھے اور ہم کہانیوں کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے تھے۔

اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ نور جہاں بھی بمبئی میں ہے لیکن ٹھہریے! میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا۔ میرا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ اصل میں مجھے یہ آٹھ اگست ہی کو معلوم ہوگیا تھا جب کہ میری ملاقات ابھی شوکت سے نہیں ہوئی تھی۔

مجھے ماہم جا کر اپنے چند رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ایک ریڈیو آرٹسٹ ثمینہ کا پتہ لینا تھا۔ (بعد میں کرشن چندر سے جس کے مراسم رہے۔) اس لڑکی کو میں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بمبئی بھیجا تھا کیونکہ اس کو فلم میں کام کرنے کا شوق تھا۔ میں نے اسے پرتھوی راج اور برج موہن کے نام تعارفی خط لکھ کر دے دیے تھے اور اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آیا وہ فلمی دنیا میں داخل ہو چکی ہے یا نہیں۔۔۔! لڑکی ذہین تھی، کردار اس کا بہت اچھا تھا، مکالمے بہت روانی کے ساتھ ادا کرتی تھی، شکل و صورت کی بھی خاصی تھی۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوگئی ہوگی۔

مجھے پتہ چلا کہ وہ شیوا جی پارک میں کہیں رہتی ہے۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے کہ ثمینہ خاتون کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ میں نظامی صاحب کے ہاں روانہ ہوگیا جو قریب ہی کیڈل روڈ پر رہتے تھے۔ مجھے ان کا ایڈریس معلوم تھا کہ وہ اکثر مجھے خط لکھتے رہتے تھے۔ یہ وہی نظامی ہیں جنہوں نے ممتاز شانتی کو تربیت دی۔ جن کے پاس ولی صاحب برسوں پڑے رہے اور آخر میں ممتاز شانتی کو نظامی صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت ہی لے اڑے۔ یہ وہی نظامی صاحب ہیں جن کی بیوی گیتا نظامی کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی اور جس نے نظامی صاحب کو لات مار کر پے در پے کئی شادیاں کیں۔ عدالتوں میں جس کے کئی مقدمے چلے اور جو اب ایک نئی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ڈانس پارٹی بنا کر شہر بہ شہر پاکستان کا پرچار کر رہے ہیں۔ نظامی صاحب سے میری ملاقاتیں صرف خطوط تک ہی محدود تھیں اور وہ بھی بڑے رسمی تھے۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ ان کے فلیٹ پر دیکھا۔ میں اگر اس ملاقات کو بیان کروں تو میرا خیال ہے، دس پندرہ صفحے اس کی نذر ہو جائیں گے، اس لیے میں اختصار سے کام لوں گا۔ نظامی صاحب جو کہ دھوتی اور بنیان پہنے تھے، مجھے بڑے تپاک سے ملے۔ انہوں نے میرے آنے کا مقصد پوچھا جو میں نے عرض کر دیا۔ آپ نے کہا، ’’ثمینہ خاتون ابھی آپ کے قدموں میں حاضر ہو جائے گی۔‘‘

ان کا ایک مریل قسم کا ہندو منیجر تھا۔ اس کو آپ نے حکم دیا کہ منٹو صاحب کے لئے فوراً ثمینہ خاتون کو حاضر کرو۔ یہ حکم دینے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ وہ میرے لیے ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً زبانی طور پر میرے لیے ایک عمدہ فلیٹ، بہترین فرنیچر اور ایک عدد کار کا بندوبست کردیا۔

ظاہر ہے کہ میں بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے مناسب اور موزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جس کی ان کو بالکل ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ وہ میرے افسانوں کے گرویدہ تھے۔ قارئین سے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نظامی صاحب زبانی جمع خرچ کے بادشاہ ہیں۔

ممتاز شانتی کو سیدھے راستے پر لگانے اور اس کو صالح تربیت دینے کے متعلق باتیں ہورہی تھیں تو نظامی صاحب نے نور جہاں کا ذکر کیا اور مجھے بتایا کہ ان دنوں وہ بھی ان کے زیر سایہ ہے اور ممتاز کی طرح تربیت حاصل کررہی ہے۔ آپ نے کہا: ’’منٹو صاحب! اگر یہ لڑکی زیادہ دیر لاہور میں رہتی تو اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا، میں نے اسے یہاں اپنے پاس بلا لیا ہے اور سمجھایا ہے کہ دیکھو بیٹا! صرف فلم اسٹار بننے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی سہارا بھی ہونا چاہئے۔ اوّل تو شروع میں عشق لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ادھر ادھر دونوں طرف سے خوب کماؤ۔ جب بینک میں تمہارا کافی روپیہ جمع ہو جائے تو کسی ایسے شریف آدمی سے شادی کر لو جو ساری عمر تمہارا غلام بن کے رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے منٹو صاحب! آپ تو بڑے دانا ہیں۔‘‘

میری ساری دانائی تو نظامی صاحب کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی نیچے فٹ پاتھ پر بھاگ گئی تھی۔ میں کیا جواب دیتا؟ بس کہہ دیا کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ مصلحت کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے آواز دے کر نور جہاں کو بلایا مگر اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور چند لمحات کے بعد نور جہاں کی آواز کسی کمرے سے آئی، ’’ابھی آتی ہوں، کمال صاحب کا فون آیا ہے۔‘‘

نظامی صاحب زیرِ لب مسکرائے۔ یہ کمال صاحب، حیدر امروہی تھے۔۔۔ ’’پکار کے شہرت یافتہ‘‘ نظامی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’میں عرض کررہا تھا کہ سہارا ہونا چاہیے تو نور جہاں کے لئے کمال امروہی سے بہتر سہارا اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن میں اس سے صاف صاف کہہ چکا ہوں کہ شادی وادی کا معاملہ غلط ہے، بس اپنا الو سیدھا کیے جاؤ۔ کمال کما سکتا ہے۔ اس کی آدھی کمائی اگر نور جہاں کو مل جایا کرے تو کیا ہرج ہے۔ اصل میں منٹو صاحب ان ایکٹرسوں کو روپیہ کمانے کے گر آنے چاہئیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ گرو جو موجود ہیں۔‘‘ نظامی خوش ہوگیا اور اس نے مجھے فوراً ایک فسٹ کلاس لیمن اسکواش پلایا۔

بس یہاں۔۔۔ نظامی صاحب کے فلیٹ میں، جہاں نور جہاں کی سائنٹیفک طریقے پر تربیت ہورہی تھی، اس کو وہ تمام چلتر خالص نظامی صاحب کی نگرانی میں سکھائے جارہے تھے، میری نور جہاں سے سرسری سی ملاقات ہوئی اور میرا رد عمل یہ تھا کہ یہ لڑکی اپنی جوانی کی منزلیں بڑی سرعت سے طے کررہی ہے اور جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ہنسی تجارتی رنگ اختیار کر رہی ہے اور جو موٹاپے کی طرف مائل ہے، اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی۔

(ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس جو انھوں نے اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں پر لکھا ہے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں