گزشتہ سال سفاکانہ قتل کی جانے والی نور مقدم کے والد شوکت علی مقدم ہفتے کے روز عدالت میں پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کراتے ہوئے قاتل ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا
مقدمے کے مدعی نے عدالت کو بتایا کہ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، میری بیٹی کا ناحق قتل کیا گیا۔
سماعت کے موقع پر ملزم ذاکر جعفر، مالی اور چوکیدار بھی پیش ہوئے تاہم مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو پیش نہیں کیا گیا۔
شوکت مقدم نے عدالت کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مزید کہا کہ نور مقدم جہاں بھی جاتی تھی عموماْ مجھے بتاکر جاتی تھی، کبھی پہنچ کر بتادیا کرتی تھی کہ وہ کس جگہ موجود ہے تاہم اس بار اس نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ وہ لاہور جارہی ہے۔
مقتولہ کے والد نے مزید بتایا کہ بیٹی کو تلاش کرنے کے لیے اس کی سہیلیوں سے رابطہ کیا، ان کے گھر بھی گیا، ایف آئی آر میں اسکی سہیلیوں کے نام نہیں دیے، 20 جولائی کو نورمقدم کی کال آئی کہ وہ لاہور جارہی ہے جس کے بعد میں نے اسے دوبارہ تلاش نہیں کیا۔
شوکت مقدم نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے معلوم ہو کہ جائے وقوع سے ملنے والا موبائل نور مقدم کا ہے، جعفر فیملی کو پہلے سے جانتا تھا لیکن دیگر ملزمان کو نہیں جانتا، جعفر فیملی کے علاوہ جیل میں کسی اور ملزم کی شناخت پریڈ نہیں کی گئی، سی سی ٹی وی ویڈیو دیکھ کر آٹھ اگست کو بنگلے کے مالی جان محمد کو نامزد کیا، میں نے بیان دیا کہ مالی نے گیٹ نہیں کھولا اور بند رکھا۔
ملزمان کے وکلا نے شوکت مقدم کے بیان پر جرح بھی کی۔
اس موقع پر عدالت میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کا میڈیکل سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ وکیل کورونا وائرس میں مبتلا ہیں۔
جج نے سوال کیا کہ وکیل ذوالقرنین سکندر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اب وہ کیسے عدالت آئیں گے؟ اس دوران اگر گواہ ہی بھاگ گیا تو کیا کریں گے؟
ملزم کے وکیل نے کہا کہ چھ، چھ فٹ کے فاصلے سے جرح ہوجائیگی۔
عدالت نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی، نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے علاوہ تفتیشی افسر پر بھی آئندہ سماعت پر جرح ہوگی۔