نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

سورج کی گرم شعاعیں صنوبر کے جُھنڈ میں سے چھنتی ہوئی اینگس کے گھر کی کھڑکی میں داخل ہو رہی تھیں۔ اینگس نے آنکھیں کھولیں اور کندھے مسلتے ہوئے سستی اتارنے لگے۔ جمی اور جیک بھی اٹھ کر بیٹھ چکے تھے۔ ’’صوفے پر سونا اتنا آرام دہ نہیں ہوتا، جتنا میرا خیال تھا۔‘‘ اینگس بڑبڑایا۔

’’آئندہ فرش پر سوتے ہیں، میں کوئی شکایت نہیں کروں گا۔‘‘ جیک نے کمبل تہہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں اپنے وقت میں ساحل کی ریت اور کبھی گھاس پر بھی راتیں گزار چکا ہوں۔ میرے پاس تو بارش سے بچنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔‘‘ جمی نے سر گھما کر جیزے کی طرف نگاہ کی۔ ’’جیزے اب کیسا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے قریب جا کر بولا: ’’کیا تم جاگ گئے ہو؟‘‘
جیزے نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ ’’میں اب ٹھیک ہوں، مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی عظیم الجثہ ریچھ نے اٹھا کر پھینکا ہو۔ ویسے میں کتنی دیر سویا رہا ہوں؟‘‘
’’صرف ایک رات میرے دوست۔‘‘ جمی نے جواب دیا۔ ’’اینگس کیا آپ ہمارے لیے ناشتے میں کچھ بنا سکتے ہیں، انڈے تو ہوں گے نا؟ مجھے بھوک لگی ہے اور یقیناً جیزے کو بھی۔‘‘
اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سب سے قریب اینگس ہی تھے، انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو جونی کو دیکھ کر چہکے: ’’اندر آؤ جونی، ہم ناشتے سے متعلق بات کر رہے تھے، یہاں میرے پاس چند انڈے اور چند دن کی پرانی ڈبل روٹی ہی پڑی ہے۔‘‘
’’اوہ یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ جونی اندر داخل ہو کر بولا۔ ’’میں اسے سب کے لیے تیار کر دیتا ہوں لیکن اگر گوشت ہو تو کیا بات ہے۔‘‘
اینگس نے کہا کہ گوشت تو نہیں ہے البتہ گزشتہ رات کا اسٹو برتن میں پڑا ہے۔ جیک نے کہا کہ اس وقت تو ہر چیز اچھی لگ رہی ہے، اس لیے لے آؤ۔ لیکن جانی نے جب انڈے بنانے کے لیے ادھر ادھر چولھے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو اسے چولھا کہیں نہیں ملا، وہ حیرت سے بولا: ’’اینگس، آپ کا کیا خیال ہے، میں انڈے کیسے پکاؤں گا، یہاں تو چولھا ہی نہیں ہے۔‘‘
اینگس مسکرائے: ’’آتش دان کے قریب کھانا پکانے والا جالی دار برتن پڑا ہوا ہے، اسی سے کام چلانا پڑے گا۔‘‘
ایسے میں جیک نے اچانک کہا: ’’میں سوچ رہا ہوں کہ ہم میں سے چند کو اس وقت قلعہ آذر جانا چاہیے، کیوں کہ گزشتہ رات ہم وہاں آس پاس کچھ زیادہ نہیں دیکھ پائے تھے، جانی کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے؟‘‘
جانی نے پھینٹے ہوئے انڈے آگ پر رکھے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔
خشک ڈبل روٹی، انڈہ آملیٹ اور آئرش اسٹو کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد جانی اور جیک قلعہ آذر کے لیے نکل گئے۔ جیک آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’کل رات جب میں یہاں پہنچا تو یہ پہلی بار تھا جب میں نے قلعہ آذر دیکھا، میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا وجود بھی ہے۔ جب میں نے پہلی بار کنگ کیگان اور آپ کو دیکھا تھا تو یہ وہ وقت تھا جب ہم اسکاٹ لینڈ جا رہے تھے۔ کنگ کیگان نے ہمیں قیمتی جواہرات چھپانے بھیجا تو مہینوں گزر گئے تھے اور کوئی شناسا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا، یہاں تک کہ آپ سے ملاقات ہو گئی۔‘‘
وہ صنوبر کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے دور نظر آنے والی جھیل پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ جانی مسکرانے لگا: ’’یہ جگہ بے انتہا خوب صورت تھی، باغیچے طرح طرح کے پھولوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں باغ میں گھنٹوں گزارا کرتا تھا۔‘‘
جیک نے کچھ سوچ کر پوچھا: ’’میں آنا اور ازابیلا کے علاوہ کسی اور بچے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، مجھے دیگر بچوں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔‘‘ جانی بتانے لگا: ’’ایک بچے کا نام سرڈِک تھا، وہ سب سے بڑا تھا۔ کیا بچہ تھا وہ… اس کے بال سونے کی دھاگوں کی طرح چمکتے تھے۔ جب سورج نکلتا ہے تو سمندر کی لہروں پر اس کی کرنیں موتیوں کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ سرڈِک کے بال مجھے یہی یاد دلاتے تھے۔ اس کے بال اس کی ماں کی طرح گھنگھریالے تھے۔ اس کی آنکھیں بنفشی جھیلوں کی طرح تھیں۔ وہ جب نکلتا تھا تو پرندوں کی شامت آ جاتی تھی، وہ سارا دن پرندوں اور تتلیوں اور جنگلی جانوروں کے پیچھے بھاگتا رہتا تھا۔
(جاری ہے)

Comments