تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

’’پتا نہیں کہاں چلا گیا بے وقوف؟‘‘ فیونا سڑک کے کنارے بنی دکانوں کی طرف دیکھنے لگی۔ جبران نے کہا چلو ان دکانوں میں دیکھتے ہیں۔ دونوں ایک ایک کر کے دکان دیکھنے لگے لیکن وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ ان کی پریشانی اور بڑھ گئی۔ اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا اور دانیال کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ ’’اب کیا ہو گا؟‘‘ جبران روہانسا ہو گیا۔

’’میرے خیال میں ہم ہوٹل چل کر دیکھتے ہیں، شاید وہ وہاں پہنچ چکا ہو۔‘‘ فیونا خود کو جیسے دلاسا دینے لگی۔ لیکن وہ اور کیا کرسکتے تھے، اس لیے ہوٹل پہنچ گئے۔ فیونا تیزی سے میگنس کی طرف بڑھی اور اس سے پوچھا: ’’کیا آپ نے دانیال کو آتے دیکھا یہاں؟‘‘

’’نہیں، میں تو سارا دن یہیں موجود رہا ہوں، وہ واپس نہیں آیا، کیا وہ کہیں کھو گیا ہے؟‘‘ میگنس نے جواب میں کہا: ’’گھبراؤ نہیں، رکجاوک زیادہ بڑا قصبہ نہیں ہے، وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔‘‘

’’آؤ یہیں پر اس کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘ فیونا بے چینی سے بولی اور دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ ’’پتا نہیں یہ لڑکے اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔‘‘ وہ غصے اور پریشانی میں بڑبڑانے لگی۔

’’اس کے پاس رقم موجود ہے، اس لیے وہ ٹیکسی کر کے یہاں آ سکتا ہے۔‘‘ جبران نے تسلی دی۔ ’’میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ یہاں ٹیکسی بھی ہوں گے، اسے تو ہوٹل کا نام تک یاد نہ ہوگا۔‘‘ فیونا کو رہ رہ کر اس پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں دروازے کی طرف دیکھتے رہے۔ آدھا گھنٹے بعد دانیال ہوٹل کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ تب تک میگنس بھی ڈیوٹی ختم کر کے جا چکا تھا۔ فیونا اسے دیکھ کر اچھلی اور دوڑ کر اس کے قریب گئی: ’’کہاں رہ گئے تھے تم، ہماری تو جان ہی نکل گئی تھی۔‘‘ فیونا نے اس کے کوٹ کا کونا پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھا دیا۔

’’یار کہاں رہ گئے تھے تم، ہم نے قصبہ چھان مارا تمھارے پیچھے۔‘‘ جبران نے بھی اطمینان کی سانس لی لیکن لہجے میں ناراضی تھی۔

’’خریداری کر رہا تھا۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

’’اوہ پتا نہیں کیا خرید رہے تھے تم۔‘‘ فیونا کو پھر غصہ آنے لگا۔

’’دراصل میں تمھارے لیے کچھ خرید رہا تھا۔‘‘ دانیال نے شرما کر کہا اور کوٹ سے ایک پیکٹ نکالا۔ ’’مجھے اس لیے پروا نہیں تھی کہ جانتا تھا تم لوگ ہوٹل پہنچ کر انتظار کرو گے، میں اسے پیک کروا رہا تھا، جب باہر نکلا تو تم لوگ جا چکے تھے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، لیکن آئندہ خیال رکھنا۔‘‘ جبران نے اسے تنبیہہ کر دی۔ ’’اور یہ کیا ہے؟ ذرا کھولنا اسے فیونا۔‘‘

فیونا نے پیکٹ کھول کر دیکھا۔ اندر سے ایک خوب صورت ہار نکل آیا۔ ’’واؤ، یہ تو بہت پیارا ہے۔‘‘ ہار کے ساتھ چَین پر ایک چھوٹا سا سہنری چوہا لٹکا ہوا تھا۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے یاد ہے تم قلعہ آذر میں چوہے سے ڈر گئی تھی، اب تو تمھارے پاس تمھارا اپنا چوہا ہو گیا ہے، جسے تم ہر وقت گلے میں لٹکائے پھر سکتی ہو، اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ تمھیں چوہوں سے ڈر محسوس نہ ہو۔‘‘

’’شکریہ، یہ واقعی پیارا ہے، چوہے میں دل کی جگہ پر ایک نگینہ بھی جڑا ہوا ہے۔‘‘ فیونا نے خوش ہو کر کہا۔

’’اچھا اب میری بات بھی سنی جائے۔‘‘ جبران نے مداخلت کی۔ ’’مجھے شدید بھوک لگی ہے، پہلے کچھ کھاتے ہیں اور پھر ہوٹل کے سوئمنگ پول میں کودتے ہیں۔‘‘

’’کیا یہاں پیراکی کا لباس مل جائے گا۔‘‘ فیونا خوشی سے اچھل پڑی۔ ’’ہاں کرائے پر مل جاتا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔ تینوں کھانے کے لیے بنے مخصوص ہال میں داخل ہوئے اور ایک میز کے گرد خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر انھوں نے اپنے لیے آئس لینڈ کی مخصوص ڈشیں منگوائیں۔ فیونا نے مقامی پین کیک، بھیڑ کا سوپ اور اسکائر منگوا لیے۔ پوچھنے پر انھیں معلوم ہوا کہ اسکائر تازہ پنیر چھان کر تیار کی جاتی ہے جو دہی کی طرح لگتی ہے۔ جبران نے بھیڑ کے نکمین پارچے اور مٹر سوپ منگوائے، جب کہ دانیال نے مینو دیکھ کر کہا: ’’میں تو کوئی بالکل ہی مختلف چیز منگواؤں گا۔‘‘

اس کی بات سن کر ویٹر فوراً بولا: ’’جناب ہمارے ہاں گھوڑے اور اودبلاؤ کا گوشت بھی دستیاب ہے۔‘‘

ویٹر کی بات سن کر فیونا اور جبران چونک پڑے۔ انھوں نے منھ بنا لیے تھے لیکن دانیال نے مسکرا کر کہا: ’’میں وھیل والی ڈش کھاؤں گا۔‘‘ ویٹر نے کہا یہ بہت مزے دار ہے، آپ کو پسند آئے گی۔

ویٹر کے جانے کے بعد دونوں نے دانیال کو آڑے ہاتھوں لیا: ’’کیا تم پاگل ہو گئے ہو، یہاں انھوں نے وھیل جیسے خوب صورت آبی جانور کو مارا ہے اور تم اسے کھاؤ گے۔‘‘ فیونا نے تیز لہجے میں کہا۔ جبران نے بھی برا منھ بنا کر کہا: ’’دانی، وھیل کا گوشت بھی کوئی کھانے کی چیز ہے، مجھے تو سوچ کر ہی متلی ہو رہی ہے۔‘‘

’’ارے تم دونوں خوامخوا ناراض ہو رہے ہو۔ میرا اگر اس سے پیٹ نہیں بھرا تو اس کے بعد گھوڑے کا اور پھر اودبلاؤ کی ڈش بھی منگوالوں گا۔‘‘ دانیال نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔

’’تم اودبلاؤ بھی کھا جاؤ گے۔‘‘ فیونا نے آنکھیں نکال لیں۔ ’’کبھی نہیں، تم ایسا نہیں کر سکتے۔ ورنہ… ورنہ پھر ہم دوست ہی نہیں ہو سکتے۔‘‘

’’تو کیا تمھارا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اودبلاؤ کھا لیا تو تم میرے ساتھ دوستی نہیں کرو گی۔‘‘ دانیال نے حیران ہو کر کہا تو فیونا نے کہا: ’’میرا مطلب یہ ہے کہ تم اودبلاؤ مت کھانا۔‘‘

ان کی گفتگو جاری تھی کہ ویٹر ان کی پسند کی ڈشیں لے آیا۔ پھر تینوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ فیونا اور جبران بار بار سر اٹھا کر دانیال کی طرف دیکھتے رہے اور برے برے منھ بناتے رہے۔

’’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے تم چربی چبا رہے ہو۔‘‘ فیونا آخرِ کار بول اٹھی۔ دانیال نے فوراً پلیٹ آگے کر دی: ’’ارے یہ تو بہت مزے کا ہے، تم دونوں بھی چکھو نا۔‘‘

’’نہیں … نہیں … شکریہ، ہم نے نہیں کھانا۔‘‘ دونوں نے جلدی سے معذرت کی۔ کچھ دیر بعد ویٹر نے آ کر پلیٹیں اٹھائیں اور جاتے جاتے دانیال کو مخاطب کیا: ’’جی جناب، ڈش کیسی لگی؟‘‘

’’بہت مزے دار۔‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

بھاری بل ادا کرنے کے بعد وہ سوئمنگ پول چلے گئے۔ جیبوں کا سارا سامان ایک لاکر میں رکھا دیا اور پھر دو گھنٹے تک خوب پیرا کی کا لطف اٹھایا اور پھر کمرے میں جا کر بستروں پر لیٹتے ہی نیند کی میٹھی وادیوں میں کھو گئے۔

(جاری ہے….)

Comments

- Advertisement -