تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

کراچی، کتاب اور مرتے ہوئے شہر کا عشق

صاحبو، کراچی سے عشق سہل نہیں، تقاضے سخت ہیں.

یہ کسی خوابیدہ عفریت سے عشق جیسا معاملہ ہے۔ ایک ایسی حسینہ سے عشق، جو درحقیقت ایک قاتلہ ہے۔

اس عشق میں دھول سے اٹی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں، کچرا کنڈیاں ہیں،  خون کی بو ہے، تاریک گھر، تنگ گلیاں ہیں، خوف ہے، اندیشہ ہے، تاریکی ہے.

کراچی سے عشق . . . سراسر گھاٹے کا سودا ہے.

اس کے باوجود میں اس کا گرویدہ ہوں. یہاں چلنے والے موت کے جھکڑ کا، گرد کے طوفان کا، موت کے جشن کا، شکستہ خوابوں‌ کا، بکھرتی امیدوں کا.

مصنف: عبید اللہ کیہر

کراچی کبھی ایک شہر تھا، اب تو یہ خس و خاشاک ہوا، راکھ ہوا، قصہ ماضی ہوا، مگر مایوسی نہیں، عین ممکن ہے ققنس کے مانند، یہ پھر اپنی راکھ سے جی اٹھے.

اسی کراچی کی ایک کہانی عبید اللہ کیہر نے بیان کی ہے، جو اپنے قابل مطالعہ سفرناموں کے وسیلے، کتابوں کی اشاعت کے انوکھے طریقوں اور  انھیں سمعی و بصری سہولت سے ہم آہنگ کرکے اپنے قارئین پیدا کرچکے ہیں.

یہ کتاب شہر کراچی سے متعلق ان کی یادداشت، مشاہدات، تجربات سے مزین ہے، جس میں‌ اس شہر کے ماضی سے متعلق بھی، تفصیلی نہ سہی، مگر اہم معلومات ملتی ہے.

کتاب کا آغاز افسانوی ہے، جو دل چسپی کو مہمیز کرتا ہے، عبید اللہ کیہر اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں، زبان کو ابلاغ کے لیے کیسے برتا جائے، انھیں‌ خبر.

اس مختصر سی کتاب میں جہاں ہمیں پرانے کراچی کے وہ رنگ دکھائی دیتے ہیں، موجودہ نسل جن سے  لاعلم، وہیں ان کرب ناک مناظر سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جنھوں نے کراچی کو آگ میں‌ جھونک دیا، شہر خموشاں بنا دیا.

بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیا الحق کے طیارے کی تباہی، سانحہ علی گڑھ اور پھر بگاڑ کا ایک بے انت سلسلہ، منصنف نے ہر واقعے کو اپنی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے زاویے سے  بیان کیا ہے۔

مصنف کی دیگر کتب

سن 1972 میں‌ خیرپور میرس سے ہجرت کرکے کراچی آنے والے عبید اللہ کیہر سن 2001 میں‌، شہر کے حالات اور سفر کی خواہش کے باعث، قسمت کی انگلی تھامے اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں، جہاں اس کتاب کا اختتام ہوتا ہے.

12 مئی کے بعد لسانیت کے جس عفریت نے انگڑائی لی، 27 دسمبر 2007، الیکشن کے بعد ہونے والی خوں ریزی، سانحہ بلدیہ، ان ہول ناک واقعات کا کتاب احاطہ نہیں کرتی۔ ممکن ہے، کسی اور کتاب میں‌ مصنف ان پہلوؤں پر روشنی ڈالیں.

 ان کا بہ طور مصنف تجربہ، نقطہ نگاہ اور اردو سے عشق متقاضی ہے کہ وہ اس شہر پر مزید لکھیں۔ یوں‌ بھی اس شہر میں‌ ہر قدم پر، ہر موڑ پر، ہر پتھر کے نیچے ایک کہانی ہے. ایک کرب ناک کہانی.

کتاب کا نام بامعنی، ٹائٹل جاذب نظر، یادگار تصاویر بھی کتاب میں‌ شامل، نشر و اشاعت کے تقاضے پورے کیے گئے ہیں.البتہ 152 صفحات کی اس کتاب کی قیمت خاصی زیادہ ہے.

Comments

- Advertisement -