تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

کانپور: ہاں یہی شہر نوا ہے!

"سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں جب اودھ اور اس کے اطراف میں علم و حکمت کے دریا موجزن تھے۔ شہرِ ادب کانپور کی صورتِ حال کیا تھی کچھ پتا نہیں چلتا۔ البتہ میر غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنی مشہور کتاب "سرورِ آزاد” مطبوعہ 1144ھ میں دیوان سید رحمت اللہ بلگرامی اور پنڈت چنتامن کی شعری خدمات کا تذکرہ ضرور کیا ہے جو عہد عالمگیری میں جاجمؤ میں قیام پذیر تھے۔”

یہ سطور ضیا فاروقی کے قلم سے نکلی ہیں‌ جو کانپور (بھارت) کی معروف ادبی شخصیت ہیں۔ ضیا فاروقی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا ایک اہم کام "مثنوی کانپور نامہ” ہے جو شہر کانپور کی ڈھائی سو سال کی ایسی منظوم ادبی تاریخ ہے جس سے اس شہر کی لسانی قدامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان کی کتاب "کانپور نامہ” 2005ء میں اشاعت پذیر ہوئی تھی جس میں ضیا فاروقی کا ایک نہایت اہم و مفصّل مقالہ بھی شامل تھا جس سے یہ چند پارے قارئین کی معلومات اور حسنِ مطالعہ کی غرض سے نقل کیے جارہے ہیں۔

وہ مزید لکھتے ہیں، "جن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا ایک اہم کام "مثنوی کانپور نامہ” ہے جو کانپور کی ڈھائی سو سال کی ایسی منظوم ادبی تاریخ ہے جس سے کانپور کی لسانی قدامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ کتاب "کانپور نامہ” 2005ء میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ اس کتاب میں ضیا فاروقی کا ایک نہایت اہم و مفصّل مقالہ بھی شامل تھا جس سے کانپور کے علمی و ادبی ماحول اور شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔”

"حالانکہ جغرافیائی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو جاجمؤ جو مخدوم شاہ اعلی کے قدموں کی برکت سے ساتویں صدی ہجری میں ہی برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ایک حصہ بن چکا تھا، اس وقت تک اودھ کے حکمرانوں کی جاگیر کا صدر مقام اور ایک فوجی مستقر کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کے اطراف میں پھیلے جنگلات میں وہ قریے اور مزارع بھی تھے جن کا باہر کی متمدن دنیا سے بظاہر کوئی رابطہ نہیں تھا۔”

"گمان غالب ہے کہ ماضی بعید میں کانپور بھی ایسی ہی ایک مختصر سی آبادی کا نام تھا۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس کے خد و خال اس وقت نمایاں ہوتے ہیں جب اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس پر اپنا تسلط قائم کیا۔
کمپنی کا فوجی اور صنعتی مستقر ہونے کے سبب جہاں تجارت پیشہ افراد یہاں آئے وہیں تلاش معاش کے سلسلے میں بھی لوگوں نے ادھر کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ارض کم شناخت ایک ایسے وسیع و عریض شہر میں تبدیل ہو گئی جس میں نہ جانے کتنے دیہات اپنا وجود کھو بیٹھے۔ باہر سے آنے والے حضرات میں یقیناً اہلِ علم بھی تھے اور علم دوست بھی۔”

"بعد میں چند صاحبان علم و ادب اور اہلِ جاہ و حشمت بھی لکھنؤ سے سیاسی مصلحتوں اور درباری ریشہ دوانیوں کے سبب یہاں آئے اور اس شہر کی ادبی شناخت کے ضامن ہوئے۔ مثلاً رجب علی بیگ سرور نے بعہد نواب غازی حیدر اپنی جلاوطنی کے تین سال یعنی 1824ء سے 1827ء تک اس شہر میں گزارے اور اس دوران بقول شخصے اپنی بیکاری اور غریب الوطنی سے تنگ آ کر جب انہوں نے بحرِ ادب میں غوطہ لگایا تو تہ سے "فسانۂ عجائب” جیسی تخلیق نکال کر لائے جو آج بھی اردو کے کلاسیکی ادب میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح نواب آغا میر کو بھی بوجوہ چند نواب نصیرالدّین حیدر کے زمانے میں لکھنؤ جیسے گلشنِ آباد کو خیرباد کہہ کر کانپور کو دارالسُرور بنانا پڑا۔ نواب آغا میر کے ساتھ ان کے قرابت داروں اور بہی خواہوں کی ایک بڑی تعداد بھی یہاں پناہ گزیں ہوئی جن کے دم سے اس شہر میں شعر و سخن کا بازار گرم ہوا۔”

"برصغیر میں 1857ء کے جہادِ عظیم سے خصوصاً مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اس نے انہیں خود اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ علم کی اہمیت اور مدرسوں کی افادیت کے پیش نظر علمائے وقت نے کانپور کو بھی ایک مرکز بنایا اور مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولوی لطف اللہ علی گڑھی، مولانا احمد حسن کانپوری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا یحییٰ ہزاروی اور مولانا محد علی کانپوری ثم منگیری جیسے علمائے کرام اور مولوی عبد الرحمن شاکر، منشی رحمت اللہ رعد، سید اساعیل منیر ،مولوی عبدالرزاق اور مولوی محمد یعقوب جیسے اکابرینِ وقت کے طفیل مدرسہ فیضِ عام، مدرسہ احسن المدارس، مدرسہ جامع العلوم اور مدرسہ الٰہیات جیسے علمی ادارے یکے بعد دیگرے نہ صرف علومِ مشرقیہ کے امانت دار بنے بلکہ ان کے وجود سے شعر و ادب کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ یہاں کچھ خدا رسیدہ بزرگوں نے بھی رشد و ہدایت کی شمعیں جلا رکھی تھیں جہاں خود آگاہی اور خدا مستی کے لیے شعر و سخن کو ایک حربے کے بطور استعمال کیا جاتا تھا۔”

"ان سب کے علاو ہ انیسویں صدی عیسوی کے وسط اور اس کے بعد یہاں قائم ہونے والے مطابع اور ان کے تحت شائع ہونے والے اخبارات و کتب کی بدولت بھی اردو زبان و ادب کی بہت ترقی ہوئی۔ ویسے تو یہاں پہلا سنگی چھاپا خانہ 1830ء میں ایک انگریز مسٹر آرچر نے قائم کیا تھا مگر بعد میں مولوی عبد الرّحمٰن نے 1847ء میں مطبع نظامی کی بنیاد ڈالی جس میں نہ صرف یہ کہ برصغیر کے معروف اہلِ قلم کی تصانیف شائع ہوئیں بلکہ ہفت روزہ ‘نور الانوار’ اور ‘نور الآفاق’ کا اجراء بھی ہوا۔ کہتے ہیں کہ نورُ الانوار سر سیّد احمد خاں کی مخالفت اور ‘تہذیب الاخلاق’ کے جواب میں نکلا تھا۔ اسی دور میں منشی رحمت اللہ رعد نے جو سرسید کے پرجوش حامی اور شعلہ بیان مقرر بھی تھے مطبعِ نامی قائم کیا جس کے تحت منجملہ دوسری علمی ادبی کتابوں کے، مولوی عبدالرزاق کی "ابرامکہ” (جو وزرائے عباسیہ کی مستند تاریخ ہے) اور مولانا شبلی نعمانی کی "الکلام” جیسی اہم کتابیں بھی شائع کیں۔”

"یہیں سے برصغیر کا پہلا باتصویر اردو اخبار "تصویر عالم” بھی عالم وجود میں آیا۔ مطابع کے تذکرے میں جمنا پرشاد کا مطبع ‘شعلہ طور’ بھی قائم ہوا اور اسی نام سے ایک ہفت روزہ بھی نکلتا تھا۔ حاجی محمد سعید کا مطبع مجیدی، حاجی محمد یعقوب کا مطبع قیومی بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔ ان مطابع کے علاوہ مطبع نول کشور، مطبع احمدی، مطبع عزیزی، مطبع آصفی، رئیس المطابع اور مطبعِ مصطفائی کے ذریعہ بھی معیاری کتب و رسائل کی اشاعت ہو رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب بھی کانپور کے چھاپا خانوں کے قتیل تھے۔ انہی مطابع کے بدولت کانپور میں شعر و ادب کا ماحول تو بنا ہی، یہ شہر کتب و رسائل کے کاروبار کا ایک بڑا مرکز بھی بن گیا۔”

"انیسویں صدی کے نصف آخر میں کانپور سے اردو کے کئی اہم اخبارات و رسائل نکلے۔ نورُ الانوار، نورُ الآفاق، تصویرِ عالم اور شعلۂ طور کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ ان کے علاوہ ہفت روزہ ‘دریائے لطافت’ سنہ اشاعت 1865ء، ہفت روزہ مطلع نور سنہ اشاعت 1809ء، منشی گوکل پرشاد کا ماہنامہ مال تہذیب 1868ء، بابو راج بہادر زخمی کا ‘مخبر حقیقی’ جو اردو اور ہندی دونوں میں نکلتا تھا اور نالۂ زخمی 1886ء، مشی گنگا پرشاد کا ماہنامہ رونقِ ہند 1883ء، حافظ عبدُالحق حقیقی کا گل دستہ چمنستانِ سخن، عنایت حسین کا ماہنامہ بہارِ سخن، شیخ علی احمد علی کا تہذیبِ سخن، بابو ہرنام سنگھ کا کانپور گزٹ، حاجی محمد سعید کا تحفۂ محمدیہ، اور مولانا آزاد سبحانی کا سیاحُ الاسلام جیسے اخبارات و رسائل کے سبب یہاں شعر و سخن کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب و روایات کو بھی بہت فروغ حاصل ہوا۔”

"مطبعِ عزیزی سے شائع ہونے والے شعری گل دستے پیامِ عاشق مطبوعہ 1884ء کے جو نسخے راقم کی نظر سے گزرے ہیں ان میں ہندوستان کے معروف شعراء کے ساتھ ساتھ کانپور کی اربابِ نشاط کا کلام بھی موجود ہے۔”

"چنانچہ ہائے دل اور جلائے دل کے قافیہ اور ردیف میں بی امراؤ جان دلبرا نامی شاعرہ کہتی ہیں:

اس شمع رو کی بزم سے اٹھتا نہیں رقیب
پروانے کی طرح کوئی کب تک جلائے دل

یہیں بی ممولا جان نازنین کا یہ شعر بھی نذرِ قارئین ہے:

اترا ہوا جو ہار گلے کا ترے ملے
پہلو میں مثلِ گل کے نہ پھولا سمائے دل

اردو زبان و ادب کی ترقی میں کانپور کی اس دور کی ادبی انجمنوں اور تنظیموں کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایک ادبی انجمن ‘اخوانُ الصّفا’ جس کے بانی منشی رحمت اللہ رعد تھے 1885ء میں یہاں قائم ہوئی۔ جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے منشی رحمت اللہ رعد سر سید احمد خاں کے بہت بڑے مداح اور علی گڑھ تحریک کے زبردست حامی تھے۔ چنانچہ اخوان الصّفا کے اراکین جن میں مولوی محمد حسین اسٹنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر، حافظ الہیٰ بخش شائق میونسپل کمشنر، سید جعفر حسین ڈپٹی مجسٹریٹ، میر علی حسین سپرنٹنڈنٹ زراعت، بابو عبدالعزیز، حاجی مولا بخش، منشی نظیر علی اور حاجی فخرالدّین جیسے اکابرین موجود تھے۔ شعر و فن کے ساتھ ساتھ سرسیّد کے نظریات کی وکالت اور علی گڑھ کالج کے استحکام کے سلسلے میں بھی پیش پیش تھے۔”

"شعر و ادب کے حوالے سے انیسویں صدی کے وسط میں قائم ہونے والی انجمن "حلقۂ ادب” جس کے روح رواں عروج کانپوری تھے بہت ممتاز تھی۔ اس انجمن کے ایک اہم رکن طاہر فرخ آبادی کا یہ شعر آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا کل تھا:

مكتب عشق کا دیکھا یہ نرالا دستور
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

یہاں ابوالعلا حکیم ناطق کی "جامع ادبیہ” کے حوالے سے کی گئی ان کوششوں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے جن کے طفیل غزل حکایت بہ یار گفتن کی قید سے رہا ہو کر زندگی کے دوسرے مسائل سے روشناس ہو سکی۔ اس اصلاحی تحریک کو پر اثر بنانے میں جو لوگ سامنے آئے ان میں صفی لکھنوی، محشر لکھنوی، نوبت رائے نظر، ننّھے آغا بابر، مرزا شرر اور عزیز لکھنوی سبعہ سیارہ کے لقب سے ملقب بھی ہوئے۔”

"یہی وہ عوامل تھے جن کے سبب علمی طور پر گمنام یہ شہر انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں علم و ادب کا ایک ایسا دریائے سبک و شیریں بن گیا جس نے مغرب سے مشرق تک کے تشنگان علم کو سیراب کیا اور جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے عشق پیشہ اور جنوں آشنا یہاں رقص بداماں نظر آئے۔”

"سیّد اسماعیل منیر، سعید عظیم آبادی، اکبر حسین سیف، احمد حسین سالک، تاج الدین تمیز اور محمد ابراہیم اثیم وغیرہ اس موسمِ بہار کے گلِ سر سبد تھے۔”

"اس منظر نے بعد میں آنے والوں پر بھی ایسا سحر کیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو رہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے اوائل میں جو اہم نام ہمارے سامنے آتا ہے وہ منشی دیا نرائن نگم کا ہے جو 1903ء میں ماہنامہ "زمانہ” کا کاروبار الہ آباد سے کانپور لائے اور اپنے حلقے میں منشی پریم چند، درگا سہائے سرور جہان آبادی، پیارے لال شاکر، نوبت رائے نظر، مولانا احسن سمبھی اور یعقوب کلام جیسے نکتہ دان اور نکتہ رس حضرات کو بھی اسیر کر لیا۔ اسی طرح مولانا حسرت موہانی نے بھی اس شہر کو نہ صرف یہ کہ اپنا جائے عمل اور سکونت بنایا بلکہ استقلال اور اردوئے معلّی کے ذریعہ کانپور کا نام بھی روشن کیا۔”

"آزادی سے پہلے یہاں سے جو معتبر اخبارات و رسائل نکلے ان میں حکیم ناطق لکھنوی کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ "العلم”، حامد حسن قادری کا بچوں کا "اخبار سعید”، روحی الہ آبادی کا ‘شگوفہ’، افق کانپوری کا ‘چمنستان’، ثاقب کانپوری کا ماہنامہ ‘نظارہ’، پروفیسر موہن سنگھ دیوانہ کا ‘ستارہ’، دور ہاشمی کا طنز و مزاح پر مبنی رسالہ ‘چونچ’ اور خواتین کا رسالہ ‘مستورات’ جس کو حبیبہ بلقیس بیگم نکالتی تھیں۔ مولانا اسماعیل ذبیح کا ‘قومی اخبار’ وغیرہ ایسے اخبار و رسائل تھے جو یہاں کی ادبی فضا کو گلنار بنا رہے تھے۔”

"اس فہرست میں ایسے بہت سے حضرات کے نام آتے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کے نصف اوّل میں قوم و ملّت کی خدمت کے ساتھ ساتھ صحت مند ادب کے لیے بھی خود کو وقف کر رکھا تھا۔ مولانا نثار احمد کانپوری، مولانا وصی علی ملیح آبادی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا اسماعیل ذبیح، پنڈت گیا پرشاد شکل ترشول، بابو گنگا دھر فرحت، کرشن سہائے وحشی ہستکاری جیسے حضرات کا شمار انہی باکمالوں میں ہوتا ہے۔”

"اس تذکرے میں حافظ حلیم کی علم دوستی کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے حلیم کالج اور جبلِ نسواں اسکول جیسے اداروں کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ مولانا شبیر احمد سمبھی کو، جنہوں نے مولانا محمد علی میموریل اسکول کی بنیاد ڈالی یقیناً یہاں کے ادبی منظر میں بھی بہت نمایاں تھے۔”

"اردو زبان و ادب کی ترقی میں مندرجہ بالا تعلیمی اداروں کے علاوہ اس زمانے میں کرائسٹ چرچ کالج، پی۔ پی۔ این۔ کالج، گورنمنٹ ہائی اسکول اور کانیہ کیج کالج کے اردو شعبوں اور ان سے متعلق حضرات کی خدمات سے بھی انکار ممکن نہیں۔ کچھ نوجوان بھی یہاں کی ادبی محفلوں کو سجانے، شعر و سخن کو سنوارنے میں پیش پیش رہتے تھے جیسے کہ اشتیاق اظہر، حنیف فوق، سید ابوالخیر کشفی اور حسنین کاظمی وغیرہ۔”

"سیاسی اعتبار سے بیسویں صدی کا نصف اوّل پورے ملک کے لیے اہم تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد عالمی سطح پر جہاں سماجی اور تہذیبی قدروں میں فرق آ رہا تھا وہیں اہلِ قلم کا اندازِ فکر بھی بدل رہا تھا۔ کانپور میں یوں تو شروع سے ہی مختلف تہذیبی، لسانی اور کسی حد تک فکری عناصر کے خلط ملط ہونے سے ایسا ادبی مزاج تعمیر ہوا تھا جس پر نہ تو حکومتِ وقت کا ہی سایہ رہا اور نہ ہی یہ اہلِ زر کی مدح خوانی کے طفیل تھا بلکہ دیکھا جائے تو یہاں کے ادبی منظر نامے پر زبان و ادب کے کسی روایتی اسکول کا بھی کوئی خاص عکس نظر نہیں آتا اور زیادہ تر شعراء بقول سید حامد حسین قادری: "لکھنوی کی نہ دہلوی کی طرف، ہم زباں میں نہیں کسی کی طرف” کا مضمون پیش کر رہے تھے۔”

"اس ماحول میں جب ترقی پسند تحریک کا سرخ پرچم بلند ہوا تو اس کے زیرِ سایہ کانپور کے قلم کار بھی آئے۔ منشی پریم چند جن کے یہاں مارکسی نظریات کی بازگشت پہلے سے ہی موجود تھی، اس تحریک کے قائد بنے۔”

"ہر چند کہ دوسری جگہوں کی طرح کانپور میں بھی ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے جو کسی خاص نظریے یا تحریک سے متاثر ہو کر تخلیقیت کا کرب اٹھاتے ہوں لیکن پھر بھی یہاں حسرت موہانی، ساحر ہوشیار پوری، نند کشور وکرم، نریش کمار شاد، سعید اختر نعمانی اور اسلم ہندی وغیرہ پر مشتمل ایک گروپ ایسا ضرور موجود تھا جو اس تحریک کی نمائندگی کر رہا تھا۔ اس زمانے میں نریش کمار شاد نے "چندن” کے نام سے ایک رسالہ نکالا جو کسی حد تک ترقی پسند تحریک کا ترجمان بھی تھا۔”

"ملک کی تقسیم کے بعد کانپور کا تہذیبی، معاشرتی ڈھانچہ بھی دوسرے شہروں کی مانند جس طرح مجروح ہوا اس کا اثر زبان و ادب پر پڑنا لازمی تھا۔ فرمان فتح پوری، اسماعیل ذبیح ، ابوالخیر کشفی اور اشتیاق اظہر جیسے شعر و ادب کے آشنا دیارِ غیر کو سدھارے اور یہاں کی فضائیں اس خوشبو سے نامانوس ہونے لگیں جو اس چمن کا خاصہ تھی۔ اس بکھرے شیرازے کو یکجا ہونے میں کچھ وقت ضرور لگا لیکن صورتِ حال مایوس کن نہیں رہی۔”

"چنانچہ اب جو نیا منظر سامنے آیا اس میں وہ شعراء بھی جو اب تک محبوب کے لب و رخسار کو ہی شعر و ادب کا ماحصل سمجھتے تھے وہ بھی خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر تاریخِ خونچکاں رقم کرنے لگے۔ یہاں غیرتِ اہلِ چمن کو للکارنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر ترقی پسند تحریک میں پھر ہلچل ہوئی۔ اس بار علی رضا حسینی، اکرام سہیل، بھیشم ساہنی، ابنِ حسن، نامی انصاری، ن۔ پرویز، تسکین زیدی، نجیب انصاری، عارف محمود اور اشہر قدوائی جیسے بالغ نظر سامنے آئے۔ اس تحریک کے لیے اپنے در وا کرنے والوں میں کامریڈ سلطان نیازی، مصطفیٰ حسین نیّر اور لطیف عباس پیش پیش تھے۔”

"آزادی کے بعد یہاں سے کئی اخبارات و رسائل کا اجراء ہوا۔ ان دستاویزی ثبوتوں کے علاوہ یہاں کی ان ادبی تنظیموں اور اداروں کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے آزادی کے بعد اس شہر میں اردو شعر و ادب کے لیے راہیں ہموار کیں۔”

اس طویل مضمون میں مصنّف نے تقسیم کے بعد کانپور میں‌ علمی و ادبی سرگرمیوں‌ کے بارے میں مختصراً بتایا ہے اور نمایاں شخصیات کا تذکرہ کیا ہے اور حرفِ‌ آخر کے طور پر پیرا سپردِ‌ قلم کیا ہے جس میں‌ اپنی کاوش سے متعلق چند اعترافات کرتے ہوئے وجہِ تصنیف بتائی ہے:

"مجھے اعتراف اور احساس ہے کہ اس ادبی منظر نامے میں یقیناً بہت سے ایسے سابق اور حالیہ حضرات کے نام رہ گئے ہوں گے جن کی ادبی اور شعری خدمات کا جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کی اس فہرست میں تقدیم و تاخیر کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہو سکا ہے۔ دراصل میرے جیسے بے بضاعت اور کوتاہ قلم سے یہ ممکن بھی نہیں تھا کہ کانپور کی کوئی مکمل ادبی تاریخ یا تذکرہ مرتب کرتا۔ ‘کانپور نامہ’ تو بس ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک کنکر پھینکنے جیسا ہے کہ کچھ ارتعاش ہو، کوئی لہر اٹھے اور شہرِ ادب کانپور کی ڈھائی سو سالہ ادبی تاریخ کے ان اوراق کو منظرِ عام پر لائے جو وقت کی دیمک کی نذر ہو رہے ہیں۔”

Comments

- Advertisement -