تازہ ترین

بوڑھے کا جواب(حکایت)

کسی ملک میں آبادی سے دور ایک پہاڑی مقام پر کوئی بوڑھا رہتا تھا جس کی ساری زندگی مطالعہ اور غور و فکر میں گزری تھی اور وہ اپنے فہم اور تدبر کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔

مقامی اور دور دراز کے علاقوں کے لوگ بھی اس کے پاس مشورہ لینے، اپنے مسائل کا حل پوچھنے کے لیے آتے تھے۔ وہ اس بوڑھے سے اپنی مشکلات بیان کرتے تو وہ ﺍنھیں کوئی اچھی بات اور ان کے مسئلے کا آسان حل بتا دیتا۔

کچھ ایسے لوگ بھی اس کے پاس آتے جو اس کی علمیت اور ذہانت کا امتحان لیتے اور مشکل سوالات پوچھتے۔ وہ ان کو درست جواب دیتا اور مسئلے کا حل بتا کر خوش کردیتا۔

وہ بوڑھا سبھی کو ان کے مسائل کا حل بتا کر یہ تاکید ضرور کرتا تھا کہ اب اس پر عمل کرنا تمھارا کام ہے۔

اسی پہاڑ کے قریب ایک بستی تھی جہاں غریب اور محنت کش لوگ رہتے تھے، ان کے بچے اور نوجوان لڑکے بہت شریر اور آوارہ گرد تھے۔ وہ اس بوڑھے سے اکثر ٹیڑھے سوال کرتے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے تھے۔

ایک صبح اس بستی کے شریر لڑکے نے اپنے دوستوں سے کہا: آؤ اس بوڑھے کو تنگ کرتے ہیں، آج وہ ہمارے سوال کا جواب نہیں‌ دے سکے گا۔ سب بہت خوش ہوئے اور ان کا اشتیاق بڑھا کہ دیکھیں وہ کس طرح اس دانا بوڑھے کو لاجواب کرتا ہے۔

اس لڑکے نے ایک کبوتر اپنے ہاتھوں میں‌ چھپا لیا، اس نے سوچا کہ بوڑھے سے پوچھے گا کہ اس کے ہاتھوں میں جو کبوتر ہے وہ زندہ ہے یا مردہ، اگر وہ کہے گا کہ زندہ ہے تو میں اسے دبا کر مار دوں گا، لیکن وہ کہے گا کہ مردہ ہے تو میں اسے آزاد کردوں گا اور اس کی پرواز سب کے سامنے اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہوگی۔ یوں بوڑھے کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

لڑکا اپنے ساتھیوں سمیت بوڑھے کے پاس پہنچا اور وہی سوال پوچھا جو اس کے ذہن میں تھا۔

اس کے ساتھی لڑکے بڑی بے تابی سے بوڑھے کے جواب کے منتظر تھے۔ اس دانا بوڑھے نے ایک نظر ان سب کو دیکھا اور پھر لڑکے کی طرف متوجہ ہوا

"اس کبوتر کے مردہ یا زندہ ہونے سے فرق نہیں‌ پڑتا، یہ ضرور ہے کہ وہ تمھارے ہاتھوں میں ہے، اور تم اس کے ساتھ جیسا پسند کرو وہ سلوک کرسکتے ہو۔”

یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کے اندر چلے گئے اور لڑکے اس روز ایک سبق سیکھ کر لوٹے کہ انسان کسی شعبدے، دھوکے سے خود کو نہیں منوا سکتا بلکہ اس کا عمل اس کی دانائی اور ذہانت کا ثبوت ہوتی ہے۔

(یہ حکایت جلال الدین رومی سے منسوب ہے)

Comments

- Advertisement -