تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

وادیِ سوات ایک پُرفضا اور سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مسکن اور ثقافت کے لحاظ سے کئی رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

صدیوں پہلے بھی یہاں مختلف فنون اور ہنر میں لوگ باکمال اور قابلِ ذکر رہے ہیں۔ قدیم دور کا انسان پتھروں اور لکڑیوں کے کام میں ماہر تھا اور اس نے نقاشی، کندہ کاری میں لازوال اور یادگار کام کیا۔

سوات کے لوگ کندہ کاری کے ہنر کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں۔ کندہ کاری وہ ہنر ہے جسے سوات میں 1300 عیسوی سے بیسویں صدی تک ہنرمندوں نے گویا حرزِ جاں بنائے رکھا۔ یہاں گندھارا آرٹ اور لکڑی پر کندہ کاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔

ہم آپ کو سوات کے ایک گاؤں سپل بانڈئی کی اس مسجد کے بارے میں بتا رہے ہیں جو تین سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کے در و بام کو جس خلوص اور محبت سے مقامی ہنر مندوں کے ہاتھوں نے سجایا تھا، اُسی طرح وہاں کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی عقیدت اور سجدوں سے اسے بسایا تھا۔ مگر پھر گردشِ زمانہ اور ہماری عدم توجہی نے اس تاریخی ورثے کو دھندلا دیا۔

سپل بانڈئی وادیِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے چند کلومیٹر دور واقع ہے جہاں یہ مسجد قائم کی گئی تھی۔ سرسبز و شاداب پہاڑی پر واقع اس گاؤں کو جانے کب بسایا گیا، لیکن محققین کا خیال ہے کہ اسے محمود غزنوی کی افغان فوج میں شامل لوگوں نے آباد کیا تھا۔

یہ تین سو سالہ تاریخی مسجد اب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک قدیم اور دوسرا موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ستون اور چھت سواتی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ماہرینِ آثار کے مطابق اس مسجد کی تزئین و آرائش میں جس لکڑی سے کام لیا گیا ہے وہ ‘‘دیار’’ کی ہے۔ تاہم پوری مسجد میں مختلف درختوں کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ محرابوں کی بات کی جائے تو اس دور میں ہنرمندوں نے اسے تین مختلف اقسام کی لکڑیوں سے جاذبیت بخشی ہے۔ اس میں کالے رنگ کی خاص لکڑی بھی شامل ہے جو اس علاقے میں نہیں پائی جاتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لکڑی منگوائی گئی تھی۔ دیار کے علاوہ عمارت میں چیڑ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔

اگر صرف مسجد میں‌ استعمال کی گئی لکڑی کی بات کی جائے تو تین سو سے زائد سال بعد بھی وہ بہتر حالت میں ہے اور ستون نہایت مضبوط ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسجد کا پرانا طرزِ تعمیر سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں دیکھا گیا.

Comments

- Advertisement -