برِصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے صدیوں تک حکم رانی کی، لیکن سکھ مذہب کے ماننے والوں کو اس خطّے میں صرف مہاراجا رنجیت سنگھ کی بدولت سلطنت نصیب ہوئی جو 27 جون 1839ء کو اس دنیا سے کوچ کرگیا تھا۔
رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو گوجراں والا میں پیدا ہوا۔ وہ سکرچکیا مثل کے سربراہ مہان سنگھ کا بیٹا تھا، جو دریائے راوی اور چناب کے درمیانی علاقے پر مشتمل تھی اور اس کا صدر مقام گوجراں والا تھا۔
مہان سنگھ نے بچّے کا نام بدھ سنگھ رکھا جسے رنجیت سنگھ کے نام سے شہرت ملی اور وہ ایک سکھ سلطنت قائم کرنے میں کام یاب ہوا۔ اس کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں اس نے کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی حکم رانی قائم کرلی تھی۔
مذہبی اعتبار سے رنجیت سنگھ کے دور اور اس کے طرزِ حکم رانی کو جہاں بعض مؤرخین نے شان دار اور روادای کا مظہر بتایا ہے، وہیں اس حوالے سے اختلافات اور مباحث بھی موجود ہیں۔ اسے بہادر اور شیرِ پنجاب اور ایسا حکم راں لکھا گیا ہے، جس کے دربار میں ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر منصب و مقام حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے دور میں بلند آواز سے اذان دینا ممنوع تھا جب کہ ذبح اور دیگر شعائرِ اسلام کی ادائیگی بھی آسان نہ تھی۔
رنجیت سنگھ کے عہد پر انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحیدالدّین و دیگر کی بھی تحقیق اور تالیف کردہ کتب شایع ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی کتب ہیں جن میں محققین نے مختلف واقعات، روایات اور قصّوں کو بنیاد بنا کر رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کی ہیں۔
رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں کی تھیں اور اس کی بیویوں میں ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں شامل تھیں۔ ان میں سے کئی نے مہاراجا کی موت کے بعد ستی ہونا پسند کیا، یہاں ہم اسی بارے میں تاریخی کتب سے معلومات نقل کررہے ہیں۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ رنجیت سنگھ کی 20 بیویاں اور کئی داشتائیں بھی تھیں۔
شاہانِ وقت کی طرح اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے کرنے کے علاوہ رنجیت سنگھ حسن و شباب سے لطف اندوز ہونا جانتا تھا۔
مؤرخین کے مطابق مہاراجا نے نو عورتوں سے سکھ مذہب کے تحت شادی کی جب کہ سات مسلمان لڑکیوں کو بھی بیاہ کر لایا۔
انہی میں ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں بھی شامل ہے جس سے 1802ء میں شادی کی۔ موراں رنجیت سنگھ کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق اس سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے موراں کے والد کی تمام شرائط قبول کیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شرط یہ تھی کہ راجا موراں کے گھر پھونکوں سے آگ جلائے اور مہاراجا نے یہ بھی کیا۔
اس نے موراں کے نام سے باغ تعمیر کیے، مسجد بنائی جو آج بھی اندرونِ لاہور موجود ہے۔ موراں لاہور میں خوب مقبول ہوئی۔ وہ لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی اور لوگ اسے موراں سرکار کہنے لگے تھے۔
مہاراجا موراں کے بعد گل بہار بیگم کی محبت میں گرفتار ہوا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی جس سے شادی کے لیے خود رنجیت سنگھ بڑے اہتمام سے تیّار ہوا۔ کہتے ہیں اس نے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔
لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔ پنجاب پر قبضے کے بعد برطانوی حکومت نے گل بہار بیگم کا سالانہ وظیفہ 12380 روپے مقرر کیا۔
لکھاری آروی سمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ آخری برسوں میں بڑھتی عمر اور بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکے تھے اور افیون کے عادی ہوگئے۔ فالج اور شراب نوشی کی کثرت جان لیوا ثابت ہوئی۔ رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویاں اور سات ہندو داشتائیں ان کے ساتھ ہی ستی ہو گئیں۔
اس حکم راں کی وفات کے بعد اس کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے جو آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ لکھی، اس میں ستی کا احوال یوں بتایا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘
ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘
گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔
ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘
’رانیاں رنجیت سنگھ کے جسد کے سَر کی جانب اور کنیزیں پاؤں کی جانب درد انگیز انتظار میں لیٹ جاتی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں اس تقریب کے بعد سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔
لاہور میں رنجیت سنگھ کی سمادھی کی تعمیر 1847ء میں مکمل ہوئی، جہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ جب کہ چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ رکھی ہوئی ہے۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت دس برس تک قائم رہ سکی۔