ہوم بلاگ صفحہ 10701

بھارت ٹوئٹر سے خوفزدہ، محفوظ پلیٹ فارم کا درجہ ختم کردیا

0

نئی دہلی : بھارت کے نئے آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) قوانین پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی پر ٹوئٹر کی انٹر میڈیری حیثیت (محفوظ پلیٹ فارم) چھین لی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اشتعال انگیز اور غیرقانون مواد کی تشہیر کے سلسلے میں معروف مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کے خلاف بھارت حکومت کی جانب بڑی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے، جس کے تحت حکام نے ٹوئٹر پلیٹ فارم کا قانونی تحفظ کا درجہ ختم کردیا ہے۔

بھارت حکام کا کہنا ہے کہ اب ٹوئٹر کے خلاف کارروائی آئی ٹی قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے عائد کی گئی، اب اگر مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ کے خلاف کوئی کیس درج ہوا تو اس کے عہدیدارن کو تعزیرات ہند کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بھارتی حکومت کے اقدامات کی روشنی نے ٹوئٹر کی جانب سے عبوری چیف مقرر کیا گیا تھا جس کی تفصیلات ٹوئٹر نے بھارتی وزارت آئی ٹی سے شیئر کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔

خیال رہے کہ بھارتی ریاست اترپردیش میں ریاستی حکومت نے بدھ کے روز ٹویٹر کے خلاف پہلا کیس درج کیا تھا۔

واضح رہے کہ بھارتی آئی ٹی ایکٹ کے تحت ٹویٹر واحد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، جس سے ‘قانونی تحفظ‘ کا درجہ واپس لیا گیا ہے، جب کہ فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ جیسے دیگر پلیٹ فارمز کو ابھی تک یہ خصوصی تحفظ حاصل ہے۔

بھارت میں 25 مئی 2021 سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نئے قواعد کا اطلاق ہوا ہے۔

اگر میں شوہر ہوتی….(طنز و مزاح)

0

آپ پوچھیں گے کہ میرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا؟

آپ اسے خیال کہہ رہے ہیں؟ جناب یہ تو میری آرزو ہے، ایک دیرینہ تمنا ہے۔ یہ خواہش تو میرے دل میں اس وقت سے پل رہی ہے، جب میں لڑکے لڑکی کا فرق بھی نہیں جانتی تھی۔

اس آرزو نے اس دن میرے دل میں جنم لیا، جب پہلی بار میرے بھائی کو مجھ پر فوقیت دی گئی، ’جب‘ اور ’اب‘ میں اتنا ہی فرق ہے کہ جب میں یہ سوچا کرتی تھی کاش میں لڑکا (بھائی) ہو جاتی، اور ان سارے سرکش اور فضول سے بھائیوں سے گن گن کر بدلہ لیا کرتی اور ان کی وہ پٹائی کرتی، کہ وہ بھی یاد کرتے۔ اور اب یہ سوچا کرتی ہوں کاش میں مرد (شوہر) بن جاتی اور میرے ’مظلوم اور بے زبان‘ شوہر میری بیوی۔

یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب ’وہ‘ بڑے طمطراق سے بولے، ’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں بیوی ہوتا اور تم شوہر‘‘ تو میں نے جھٹ یہ جواب دیا، ’’تو بن جائیے نا، اس میں سوچنے کی کیا بات ہے؟‘‘

’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ تم شوہر، ہوتیں تو کیا ہوتا؟‘‘

’’وہ نہ ہوتا جو آج ہو رہا ہے۔‘‘

’’مان لو کہ تم شوہر ہو گئیں۔ اب بتاؤ، تم کیا کرو گی؟‘‘

’’تو پھرمیں گن گن کر بدلہ لوں گی اور کیا کروں گی، لیکن ذرا مجھے اس بات پر خوش تو ہولینے دیجیے۔‘‘

اور سچ مچ میرے اوپر تھوڑی دیر تک ایک عجیب سی کیفیت طاری رہی۔ اس روح پرور خیال نے میرے پورے جسم و جان میں ایک وجدانی کیفیت پیدا کردی اور میں سوچنے لگی، کہ واقعی اگر میں شوہر بن جاتی تو کیا ہوتا، لیکن اتنا ہی تو کافی نہیں ہوتا کہ میں شوہربن جاتی، اس کے ساتھ میرے شوہر بھی تو میری بیوی بنتے۔ مزہ تو جب ہی تھا۔

ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیے۔ اب میں شوہر بن گئی ہوں۔ مجھے کہیں دعوت میں جانا ہے، میں اپنی تیاری شروع کرتا ہوں۔ شیو بناتا ہوں، نہاتا ہوں، گھنٹہ بھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر کریم پوڈر مل مل کر بڑی مشکل سے اپنے کالے چہرے کو سانولے کی حد تک لے آتا ہوں، پھر ٹائی باندھتا ہوں، ناٹ درست کرنے میں بھی کم وبیش آدھا گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے، پریس کی ہوئی پینٹ کی کریز درست کرتا ہوں، ٹائی کے ہم رنگ نمائشی رومال کو کوٹ کی اوپری جیب میں باقاعدہ جماتا ہوں، وہ گندا رومال جو منہ، ہاتھ، چشمہ اور جوتے پونچھنے کے کام آتا ہے، اسے پینٹ کی جیب میں رکھتا ہوں۔

اپنے فارغ البال ہوتے ہوئے سر پر بچے کھچے بالوں کی تہ اچھی طرح جماتا ہوں، تاکہ کہیں سے سپاٹ چاند نہ نمودارہوجائے۔ گھر میں بدقسمتی سے ایک ہی آئینہ ہے اور اس پر کم و بیش ڈھائی تین گھنٹے میرا قبضہ رہتا ہے۔ گھر کے جملہ امور نوکر کو سمجھانے اور دروازے وغیرہ اچھی طرح بند کرنے کی ہدایت دے چکنے کے بعد جب میری بیوی (یعنی میرے موجودہ شوہر) آئینہ کے سامنے کھڑی ہوکر میک اپ شروع کرتی، تو میں ٹھیک اپنے موجودہ شوہر کی طرح کہتا ہوں، ’’بس اب تیار ہو بھی ہو چکو، تمہاری وجہ سے پارٹی میں دیر ہوگئی۔ خدا بچائے عورتوں کے سنگھار اور آرائش سے۔‘‘

میرے بار بار کہنے پر کہ دیر ہو رہی ہے، جلدی کرو، وہ غریب پندرہ منٹ میں الٹی سیدھی تیار ہوجاتی ہے اور جلدی میں ایک نئی اور ایک پرانی چپل پہن کر، یا ساڑی سے میچ کرتا ہوا پرس میز ہی پر چھوڑ کر پرانا پھٹا ہوا پرس ہاتھ میں لٹکائے چل پڑتی ہے، اور میں اس کی سابق شوہرانہ زیادیتوں کو یاد کر کے دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا اس کے ساتھ ہو لیتا ہوں۔ جب ہم دعوت میں پہنچتے ہیں تو تقریباً لوگ واپس جارہے ہوتے ہیں لیکن میں بڑی آسانی سے یہ کہہ کر صاف بچ جاتا ہوں۔

’’معاف کیجیے گا، ان کی تیاریوں میں دیر ہوگئی۔ عورتوں کا میک آپ تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘

پھر بھلا کس میں ہمّت ہے کہ اس عالم گیر جھوٹ (جسے حقیقت کہا جاتا ہے) سے انکار کردے۔

شوہر بننے کے ایک اور افادی پہلو پر بھی ذرا غور کر لیں۔ مجھے کہیں صبح سویرے ہی جانا ہے، دسمبر کی کڑکڑاتی سردی ہے۔ میں گھڑی میں چار بجے کا الارم لگا کر سوجاتا ہوں، میری بیوی الارم کی کرخت اور مسلسل آواز سے گھبرا کر اٹھ بیٹھتی ہے اور باورچی خانہ میں جاکر ناشتے کی تیاری میں جٹ جاتی ہے۔ اتنے سویرے نوکر کو اٹھانے کی کس میں ہمّت ہے، آپ ہی بتائیے، جب شوہر نہیں اٹھتا، تو نوکر کیا اٹھے گا۔

باورچی خانے میں کھٹ پٹ کی آواز ہوتی رہتی ہے، اور میں لحاف میں دبکا پڑا رہتا ہوں۔ گرما گرم پراٹھوں، انڈوں حلوے وغیرہ کی اشتہا انگیز خوشبو بھی مجھے بستر سے اٹھانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر میری بیوی آتی ہے، ہولے ہولے مجھے اٹھاتی ہے، اور پھر جب میں گرم پانی سے شیو کرنے اور نہانے کے بعد تیار ہو کر میز پر پہنچتا ہوں تو ناشتہ کی بیش تر چیزیں اور چائے ٹھنڈی ہوچکی ہوتی ہے، اور ان چیزوں کے دوبارہ گرم ہونے میں جو وقت لگتا اسے اپنے لیٹ ہونے کا ذمہ دار قرار دے کر بکتا جھکتا میں گھر سے روانہ ہوجاتا ہوں۔

اگر میں شوہر ہوتی۔ تو اس وقت کتنا مزا آتا جب دفتر سے ٹھیک ٹائم سے واپسی پر دفتر کے کینٹین یا کسی دوسرے ریستوران میں دوستوں کے ساتھ چائے ناشتہ کرتے ہوئے خوش گپیاں کرنے کے بعد منہ سکھائے ہوئے دفتر کے کام سے تھک جانے اور اپنے باس کی زیادتیوں کی شکایت لیے ہوئے گھر میں داخل ہوتا اور بے دم ہو کر مسہری پر گر پڑتا۔

بیوی بے چاری لپک کر جوتے اتارتی، پنکھا آن کرتی اور تکیے وغیرہ ٹھیک سے رکھ دیتی اور تھوڑی دیر کے لیے میرے آرام و سکون کی خاطر گھر کے تمام ہنگاموں کو روک دیا جاتا اور میں بیوی کی طرف سے کروٹ لیے دل ہی دل میں ہنسا کرتا۔

اور اس سے بڑھ کر مزا تو اس وقت آتا، جب دفتر سے نکلتے ہی یار لوگ کسی ادبی یا غیر ادبی پروگرام کے لیے باہر ہی باہر مجھے گھسیٹ لیتے اور ساڑھے پانچ بجے کی بجائے دس بارہ بجے رات کو تھکا ماندہ گھر پہنچتا اور بیوی کی عقل مندی اور تیزی و طراری کے باوجود اسے یہ باور کرانے میں کام یاب ہو جاتا کہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے آج میری ڈبل ڈیوٹی لگا دی گئی تھی۔

میری بیوی دفتر کے بدانتظامیوں کو برا بھلا کہتی ہوئی کھانا گرم کرنے چل پڑتی۔ باورچی خانے سے اس کی بڑبڑانے کی آواز آتی رہتی اور میں دل کھول کر خوش ہوتا اور مزے لیتا۔

ایک اور پُرلطف بات یہ ہوتی کہ میرے لیے پڑھنے لکھنے کا سامان اور سکون ہر وقت موجود ہوتا اور فرصت کے اوقات میں، میں بڑی آسانی سے لکھ پڑھ لیتا، میری زیادہ مصروفیت دیکھ کر میری بیوی گرم گرم چائے کی پیالی میز پر رکھ جاتی۔ یہی نہیں، بلکہ ایسے وقت میں ہر آنے والے کو ’’صاحب گھر میں نہیں ہیں‘‘ کا پیغام پہنچا دیا جاتا۔

اس وقت تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا جب میں دیکھتا کہ میری بیوی اب کچھ لکھنے کو بیٹھی ہے۔ ابھی اسے کاغذ قلم لے کر بیٹھے ہوئے کچھ دیر بھی نہ ہوئی ہوتی کہ ملازم آدھمکتا۔

’’بی بی جی، سودا لایا ہوں، حساب ملا لیجیے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ہانک لگاتا، ’’بی بی جی گوشت کیسا پکے گا، شوربے دار یا بھنا ہوا۔‘‘ پھر ایک آواز آتی، ’’بی بی جی! کپڑے لائی ہوں، ملالیجیے۔‘‘ اور میری بیوی بھنّاتے ہوئے کاغذ قلم پٹخ کر دھوبن کا حساب کتاب کرنے اور پھر میلے کپڑے لکھنے کو چل پڑتی، اور جب اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ کے لکھنے پڑھنے کو کیا ہوا تو جل کر جواب دیتی، ’’چولھے بھاڑ میں گیا۔‘‘

پہلی تاریخ کو ایک فرماں بردار شوہر کی مثال قائم کرتے ہوئے تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے تمام آسانی اور زمینی آفتوں سے بری الذّمہ ہوجاتا۔ بے فکری کے دن اور رات کٹتے، کبھی سوچنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ گھر کیسے چل رہا ہے۔ مقررہ جیب خرچ کے علاوہ بیوی کی صندوقچی پر بھی چھوٹے موٹے ڈاکے ڈالا کرتا اور اس کے پوچھنے پر اچھی خاصی جنگ کا ماحول پیدا کر دیتا۔ مجھے کبھی یہ پتہ نہ چلتا، کہ کب عید آئی اور کیسے بقرعید منائی گئی۔ ایک قربانی کے لیے بیوی نے کتنی قربانیاں دیں۔

دوسروں کے یہاں کی تقریبات نے اپنے گھر گرہستی کی دنیا میں کتنا بڑا زلزلہ پیدا کیا اور تنخواہ کی بنیادیں تک ہلیں۔ میں تو بس ٹھاٹ سے ان تقریبات میں حصہ لیا کرتا، دوستوں اور عزیزوں سے ملاقاتیں ہوتیں، مزے دار کھانے ملتے اور خوب تفریح رہتی۔ اگر میری بیوی کبھی میری فضول خرچی سے تنگ آکر بجٹ فیل ہونے کی بات کہتی، تو میں بڑے پیار سے کہتا، ’’جان من! بجٹ فیل تو ہر بڑی حکومت کا رہتا ہے، بجٹ کا فیل ہونا باعثِ فکر نہیں، بلکہ باعث عزت و شوکت ہے۔‘‘

تو جناب یہ ہے کہ میرا پروگرام۔ بس خدا ایک بار مجھے شوہر بنا دے تاکہ میں بھی فخر سے کہہ سکوں….

زندگی نام ہے ہنس ہنس کے جیے جانے کا

(طنز و مزاح‌ پر مبنی یہ تحریر سرور جمال کی ہے جن کا تعلق بہار، بھارت سے ہے)

کراچی میں شارٹ ٹرم اغوا کا واقعہ، تفصیل سامنے آ گئی

0

کراچی: شہر قائد میں چند دن قبل کورنگی کراسنگ کے علاقے میں تاجر کے بیٹے کے مختصر مدت کے اغوا کا واقعہ پیش آیا تھا، اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اے آر وائی نیوز کو حاصل ہوئی ہے، جس سے واقعے کی تفصیل سامنے آ گئی۔

تفصیلات کے مطابق نامعلوم افراد 11 جون کو کورنگی کراسنگ پر واقع ٹاور میں سونے کے تاجر کی جیولری شاپ میں داخل ہوئے، اور ان کے بیٹے کو دکان سے اغوا کر کے لے گئے، واردات کے وقت جیولری شاپ پر تاجر کا بیٹا ہی موجود تھا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق مسلح افراد نے دکان میں داخل ہوتے وقت خود کو اسپیشل برانچ کے اہل کار ظاہر کیا، ملزمان نے دکان میں داخل ہوتے ہی تاجر کے بیٹے کے ہاتھ سے سونا لے کر جیب میں رکھ لیا۔

ملزمان نے تاجر کے بیٹے کو اپنے ساتھ لیا اور باہر لے گئے، تاجر کے بیٹے کو باہر لے جانے سے قبل ملزمان نے بچے سے بھی دکان بند کرائی، اس کے بعد انھوں نے بچے کو مارکیٹ کے باہر کھڑی سفید رنگ کی کار میں بٹھا دیا۔

تاجر کے بیٹے کو لے جاتے وقت ملزمان کے پاس پہلے ہی سے ایک بچہ اور تھا، ملزمان بچے کو کار میں ڈال کر ساتھ لے گئے، اور پھر ملزمان کی جانب سے اغوا کیے گئے بچے کی فیملی سے رابطہ کیا گیا۔

اس واقعے میں ملزمان نے بچے کی بحفاظت رہائی کے لیے 10 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا، اور رقم کی ادائیگی میں تاخیر پر ملزمان نے بچے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا، تشدد کے وقت بچے کی جیب سے 140 گرام سونا برآمد ہوا تو ملزمان نے اسے قبضے میں لے لیا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق ملزمان نے 3 گھنٹے تک بچے کو تحویل میں رکھا تھا، اور پھر سنسان ایریا میں چھوڑ کر بھاگ گئے، پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

’یورپ کا قانون آئی فون صارفین کی پرائیوسی تباہ کررہا ہے‘

0

نیویارک: امریکا کی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ٹم کک نے یورپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کردیا۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق پیرس میں منعقد ہونے والی ویوا ٹیک 2021 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹم کک نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایکٹ (ڈی ایم اے) کے حوالے سے خبردار کیا۔

انہوں نے کہا کہ’ اس ایکٹ کی وجہ سے آئی فون صارفین کی سیکیورٹی پرائیویسی تباہ کی جارہی ہے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے‘۔

ٹم کک کا کہنا تھا کہ ’یہ ایکٹ موبائل بنانے والی کمپنیوں کے لیے خطرناک ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور صارفین کے مفاد میں نہیں ہے، فون کے آپریٹنگ سسٹم کی زبان کو صارف کی دلچسپی کے مطابق ہی رکھا جاتا ہے‘۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہ ڈی ایم اے کے ذریعے تمام بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے ایپل اور گوگل کے اختیارات کو ختم کر کے مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کی جائے گی، جو موبائل صارفین اور ٹیکانولجی کمپنیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

ٹم کک نے کہا کہ قانون کا اطلاق 2023 سے ہوگا اور کوئی بھی کمپنی موجودہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں کررہی، جس کی وجہ سے اُسے عالمی محصول کا دس فیصد بطور جرمانہ ادا کرنا پڑے۔

آزادکشمیر انتخابات؛ پیپلزپارٹی کے مزید6 امیدواروں کی منظوری

0

آزاد کشمیر انتخابات کے حوالے سے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے مزید 6 امیدواروں کے ناموں کی ‏منظوری دے دی۔

ایل اے 4 کھڑی شریف سے ریاست تبسم پیپلزپارٹی کے امیدوار ہوں گے جب کہ ایل اے6سماہنی ‏سے ادریس چوہدری امیدوار ہوں گے۔

ایل اے22پاچھیوٹ، تھورر سے سیددلاور بخاری، ایل اے34جموں 1 سےسردار زاہد پیپلزپارٹی کے ‏امیدوارہوں گے۔

ایل اے38جموں5سےاشرف چغتائی اور ایل اے41ویلی 2 سے شبیرعباس میر پیپلزپارٹی کے امیدوار ‏ہوں گے۔

پیپلزپارٹی نے45 میں سے 43 امیدواروں کے ناموں کی منظوری دی ہے اور چیئرمین پی پی بلاول بھٹو ‏‏2 امیدواروں کے ناموں کافیصلہ بعدمیں کریں گے۔

یاد رہے کہ وزیرامور کشمیر نے واضح کیا تھا کہ آزادکشمیر انتخابات ملتوی ہونے کی خبروں میں ‏صداقت نہیں، ‏حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈےکو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوروناسےمتعلق این سی او سی کا کردار قابل ستائش ہے، این سی اوسی وبا ‏‏کیخلاف قومی کاوشوں کا آئینہ دار ہے، این سی اوسی زمینی حقائق کومدنظر رکھ کر فیصلے کرتا ‏‏ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کسی نےالیکشن ملتوی کرنےکی کوئی سفارش نہیں کی، اپوزیشن دوسروں ‏‏پرالزامات کے بجائےاپنی صفوں میں درستگی کرے، عوام موروثی سیاست سےبیزار ہو چکے ہیں، پی ‏‏پی کےپاس50 فیصد سیٹوں پرانتخابات کیلئے امیدوار ہی نہیں۔

واضح رہے کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے 2 ماہ کے لیے آزادکشمیر ‏‏انتخابات مؤخر ‏کرنےکی تجویز دے دی۔

ایف آئی اے نے حمزہ شہباز کو طلب کرلیا

0
حمزہ شہباز

لاہور: مسلم لیگ ن کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو ایف آئی اے نے طلب کرلیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کو رمضان شوگر ملز کیس کی تحقیقات کے لیے 24 جون کو طلب کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز کو رمضان شوگر ملز کے سی ای او کی حیثیت سے طلب کیا گیا، انکوائری میں شامل نہ ہونے پر انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

ایف آئی اے نوٹس کے مطابق حمزہ شہباز رمضان شوگر ملز، شریف فیڈر ملز، شریف پولٹری فارمز اور مدنی ٹریڈنگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔

وہ شریف ڈیری فارمز، شریف ملک پراڈکٹس، رمضان انرجی لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور العربیہ شوگر ملز کے شئیر ہولڈر ہیں۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ انکوائری کے لیے پیش نہ ہونے پر حمزہ شہباز کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز اس وقت رمضان شوگر ملز کے سی ای اوز اور ایم این بھی تھے۔

فٹبالر کرسچن ایرکسن روبہ صحت، تصویر سامنے آگئی

0

ڈنمارک کے فٹبالر کرسچن ایرکسن کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور وہ صحت یابی کی جانب گامزن ہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کرسچن ایرکسن نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر شیئر کی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اسپتال میں موجود ہیں۔

فٹبالر کرسچن ایرکسن نے تصویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں بتایا کہ ’صحت اب بہتر ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت اسپتال میں ہوں اور ڈاکٹرز نے مجھے مزید ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کی ہے، انٹر ملان کے مڈ فیلڈر فٹبالر نے نیک تمناؤں اور دعاؤں پر مداحوں کا شکریہ ادا کیا۔

واضح رہے کہ یورو کپ کے ایک میچ کے دوران 29 سالہ فٹبالر کرسنچن ایرکسن گر گئے تھے جس کے بعد میچ کو معطل کردیا گیا اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

کرسچن ایرکسن کو دل کا دورہ پڑنے کی خبر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وائرل ہوئی تو مداحوں کی جانب سے نیک تمناؤں کے ساتھ ساتھ جذباتی پیغامات دیکھنے کو ملے، ایک صارف نے لکھا کہ یہ واقعی بہت افسوسناک ہے، لیکن کل ان تصاویر کو دیکھنے کے بعد مجھے خوشی ہے کہ وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔

ایک اور ٹویٹر صارف کا کہنا تھا کہ ان کی صحت اس وقت زیادہ اہم ہے، ان کے کیریئر کے بارے میں فیصلے کا انتظار کیا جا سکتا ہے، مجھے یقین ہے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان کی صحت کا مکمل جائزہ لیا جائے گا۔

ساحل پر نہانے والے بال بال بچے، ویڈیو دیکھیں

0

کارڈف: برطانیہ کے جنوب مغربی حصے میں واقع ملک ویلز میں تیراکوں کے ساتھ ساحل ایک خوفناک واقعہ پیش آیا، جس میں وہ خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ویلز سے تعلق رکھنے والے تیراک روسنیگر کے قریب انجلسی کے ساحل پر تفریح کی غرض سے پہنچے۔

سب اپنی اپنی مستی میں مگن تھے اور اس دوران ایک نوجوان ویڈیو بنا رہا تھا، جس نے سمندر میں زہریلے سانپ کو پانی کے اوپر تیرتے ہوئے دیکھا۔

حیران کن طور پر یہ سانپ نوجوانوں کو دیکھ کر بھاگا نہیں بلکہ وہ تیزی سے تیرتا ہوا اُن کے قریب آیا، جس پر سب فوراً پانی سے باہر نکل کر کھڑے ہوگئے۔

مزید پڑھیں : جھیل کنارے مچھلی کا شکار کرنے والے شخص کے ساتھ پیش آیا خوفناک واقعہ

بعد ازاں یہ سانپ ایک دم نظروں سے اوجھل ہوا تو نوجوانوں نے اسے تلاش کرنے کی ٹھان لی اور کافی دیر کی تگ و دو کے بعد ساحل پر موجود جنگلی پودوں کے درمیان اسے پایا۔

یہ ویڈیو جون میریون نامی شخص نے انٹرنیٹ پر شیئر کی، جو خود بھی ان تیراکوں میں شامل تھے اور اس منظر کو انہوں نے ہی اپنے موبائل میں قید کیا تھا۔

انٹرنیٹ پر جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو صارفین نے ویڈیو بنانے والے شخص کو بے وقوف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سانپ نقصان پہنچا سکتا تھا‘۔

چرواہے کا بیٹا (حکایت)

0

یہ سرزمینِ عرب کے ایک بادشاہ اور اس کے مصاحبِ خاص کا قصّہ ہے جس میں‌ ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں ایک روز کسی طرح ایک شخص دربار میں‌ داخل ہونے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے۔ اندر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ بادشاہ آج کسی بات پر خوش ہے اور دربار کا ماحول بہت اچھا ہے۔

اس شخص نے بادشاہ کو سلام کرکے عاجزانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

اس نے کہا کہ میں بے روزگار ہوں، جو کام مل جاتا ہے، کر لیتا ہوں اور محنت سے جی نہیں‌ چراتا، مگر کچھ عرصے سے قسمت نے یاوری نہ کی اور بہت تنگی سے گزر بسر کرتا رہا، اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔

بادشاہ نے اس کی قابلیت پوچھی تو کہا۔ "سیاسی (یعنی معاملہ فہم اور دانا) ہوں۔”

بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے شاہی اصطبل کا انچارج بنا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ کام پر لگ گیا۔ چند ہفتے بعد بادشاہ نے اسے طلب کرکے اپنے سب سے چہیتے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔

اس شخص نے جو اب شاہی سواری کے لیے مخصوص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج تھا، جواب دیا، "حضور، وہ نسلی نہیں ہے۔”

یہ سن کر بادشاہ کو تعجب ہوا۔ اس نے سائیس کو بلاکر اس بابت دریافت کیا۔ اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے، لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر زندہ رہا اور اسی کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔

بادشاہ نے انچارج سے پوچھا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے۔؟

اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سَر نیچے کر لیتا ہے جب کہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سَر کو اٹھا لیتا ہے۔

بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے داد اور انعام کے طور پر اصطبل کے رئیس کے گھر اناج، بھنے دنبے اور حلال پرندوں کا عمدہ گوشت بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ملکہ کے محل میں تعیناتی کا حکم بھی جاری کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے اس مصاحب سے اپنی زوجہ کے بارے رائے مانگی۔

اس نے کہا، طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، لیکن "شہزادی نہیں ہے۔” یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصّہ آیا، اور اس نے اپنی ساس جو خود ایک ملک کی ملکہ تھی، کو بُلا کر معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد نے بچّی کی پیدائش پر ہی اس کا رشتہ آپ کے لیے مانگ لیا تھا، لیکن وہ ایک بیماری کے سبب سال بھر ہی زندہ رہ سکی اور ہم نے بادشاہ یعنی آپ کے والد سے تعلق اور قرابت داری کے لالچ میں کسی کی بچّی گود لے کر پالی اور اسی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔

اب بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ "تم نے کیسے جان لیا کہ میری زوجہ کسی شاہی خاندان کی عورت نہیں ہے۔”

اس نے کہا، "وہ اپنے خادموں کے ساتھ بدسلوکی میں کسی جاہل سے بھی بدتر ہیں۔”

اب تو بادشاہ نے اس شخص کو دانا اور نہایت عقل مند مان لیا۔ اس نے بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام بھی دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں خاص منصب عطا کیا۔

کچھ وقت گزرا تو بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور کہا کہ میرے بارے میں کچھ بتاؤ۔

اس مصاحبِ خاص نے کہا، "جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔” بادشاہ نے امان کا وعدہ کیا، اس نے کہا: "آپ کا طور طریقہ اور چلن بتاتا ہے کہ آپ بادشاہ زادے نہیں‌ ہیں۔”

بادشاہ کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا، مگر وہ جان کی امان دے چکا تھا، سو چپ رہا اور سیدھا اپنی ماں کے پاس گیا۔ اس نے اپنے بارے میں ماں سے دریافت کیا تو اس نے بتایا:

"اس مصاحب کی بات سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو ہم نے تمھیں لے کر پالا اور کسی کو اس کی خبر نہ ہونے دی کہ تم ہماری حقیقی اولاد نہیں‌ ہو۔”

بادشاہ نے مصاحب کو پھر بلایا اور پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ہوا؟”

اس نے کہا، جب شاہانِ وقت کسی کو انعام و اکرام دینا چاہتے ہیں تو اسے ہیرے موتی، جواہرات دیتے ہیں اور اشرفیوں میں‌ تولتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ بکریوں اور بھنا ہوا گوشت عنایت کرتے ہیں جیسے ایک معمولی رئیس کا طور ہوتا ہے۔”

یہ حکایت اس وقت بیان کی جاتی ہے جب کسی کی خاص عادت اور طرزِ عمل کی بنیاد پر اس کے خصائل اور اخلاقی حالت کے بارے میں رائے دینا ہو۔

انجنیئرنگ کے طلبہ کے امتحان سے متعلق بڑا فیصلہ

0

اسلام آباد: وزرات تعلیم نے پاکستان کے تمام طلبہ کو ای کیٹ یا انجنیئرنگ کا امتحان دینے کی اجازت کا فیصلہ کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت انجنیئرنگ یونیورسٹیز میں داخلوں پر اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان انجنیئرنگ کونسل (پی ای سی)، انجنیئرنگ یونیورسٹیز کے وی سیز، اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے عہدے دار شریک ہوئے۔

مشاورتی اجلاس میں کو وِڈ 19 کی وجہ سے تعلیمی سال اور امتحانات مؤخر ہونے کے سبب انجنیئرنگ یونیورسٹیز میں بروقت داخلے کو یقینی بنانے اور طلبہ کے سال کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے مختلف آپشنز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

انجینئرنگ کونسل اور ایچ ای سی کے اجلاس میں متفقہ فیصلہ ہوا کہ تمام طلبہ جن کا انٹرمیڈیٹ کا امتحان ہو چکا ہوگا یا ابھی ہونا ہوگا، سب کو ای کیٹ امتحان / انجنیئرنگ کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔

کیمبرج کے A2 کے طلبہ کو بھی ای کیٹ اور انجنیئرنگ کے داخلہ امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی، اور یونیورسٹیز ان کو پروویژنل ایڈمیشن دیں گی، جو کہ ان کے فائنل امتحان سے مشروط ہوگا، جن کا نتیجہ جنوری میں متوقع ہے۔

وزارت تعلیم کے مطابق طالب علم کو انجنیئرنگ امتحان میں بیٹھنے سے روکا نہیں جائے گا، اجلاس میں شفقت محمود نے کہا طلبہ اور تعلیمی اداروں کے لیے رواں سال غیر معمولی نوعیت کا سال ہے، اس لیے ہمیں غیر معمولی فیصلے لینے پڑے ہیں۔