ہوم بلاگ صفحہ 7211

دبئی میں ایئرلائن نے کرایہ 2 درہم کردیا

0

دبئی میں موجود سیبو پیسیفک ایئر نے کرایوں میں بڑی رعایت دے دی۔

گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق سیبو پیسیفک ایئر نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال 10 سے 12 جون تک دبئی سے منیلا سفر کرنے والے مسافر صرف 2 درہم ادا کریں۔

فلپائن اور متحدہ عرب امارات نے اپنے قرنطینہ مدت کو ختم کردیا ہے اور مکمل ویکسین شدہ مسافروں کے لیے سفری پابندیوں میں نرمی کردی گئی ہے۔

یہ مہم فلپائن کے جدید دور کے ہیروز کے لیے ایک بروقت موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ آئندہ سال کے لیے اپنے ٹکٹ جلد از جلد بک کرائیں چھٹیوں سے لطف اندوز ہوں۔

دبئی سے منیلا جانے والی سیبو پیسفک کی پرواز کی قیمت فی الحال تقریباً 2,800 درہم ہے جبکہ ایمریٹس ایئر لائن روٹ پر درہم 2,400 تک چارج کرتی نظر آتی ہے۔

فلپائن نے سفری قوانین میں نرمی کی اور 10 فروری سے ملک کے سیاحت کے شعبے کو بین الاقوامی مسافروں کے لیے دوبارہ کھول دیا لیکن اس نے قبل از روانگی ریورس ٹرانسکرپشن پولیمریز چین ری ایکشن ٹیسٹ کو کئی راستوں پر ایک اہم ضرورت کے طور پر رکھا ہے۔

یادداشت بہتر بنانی ہے تو یہ چیزیں کھائیں

0

برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں محققین نے وہ غذائیں بتائی ہیں جس کو کھانا یادداشت بہتر بنانے میں معاون ہوسکتا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق لندن کی بِربیک یونیورسٹی میں غذا کے یادداشت اور نیند کے معیار پر اثرات کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق میں محققین کو معلوم ہوا ہے کہ خالصتاً مچھلی اور سبزیوں پر مشتمل غذا آپ کی یادداشت کو بہتر بنا سکتی ہے۔

تحقیق کے لیے محققین کی ٹیم نے 40 سال سے بڑی عمر کے 62 افراد کا انتخاب کیا جن کی غذائیں یا تو سبزیوں، مچھلیوں پر مشتمل تھیں یا پھر وہ سبزی اور گوشت دونوں کھاتے تھے لیکن ان کی غذا میں گوشت کا تناسب کم ہوتا تھا جبکہ ایسے افراد بھی تھے جن کی غذا میں گوشت کی کھپت زیادہ تھی۔

پِینر سینگل کی سربراہی میں تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ گوشت پر مشتمل غذا کے بجائے سبزیوں کے استعمال کے نتیجے میں قلیل مدتی زبانی یادداشت میں بہتری دیکھی گئی۔ سبزیوں پر مشتمل غذا بہتر قلبی اور دماغی حالتوں سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بحیرہ روم کے علاقوں کی غذاؤں(جو زیادہ پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل ہوتی ہیں) کا تعلق نیورونز کے ختم کردینے والی بیماریوں کے خطرات میں کمی اور سوچنے سمجھنے کی کارکردگی میں بہتری کے ساتھ پایا گیا

"ماں کو قتل کرنے پر افسوس نہیں” جنونی اور سفاک بیٹے کا پولیس کو جواب

0

بھارت میں گزشتہ دنوں پب جی گیم کھیلنے سے روکنے پر ماں کو قتل کرنے والے سفاک بیٹے نے کہا ہے کہ اس کو اپنی ماں کو مارنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔

بھارتی شہر لکھنو میں گزشتہ دنوں 16 سالہ لڑکے نے آن لائن گیم پب جی کھیلنے سے روکنے پر اپنی والدہ کو قتل کردیا تھا لیکن ناخلف بیٹے کو اپنے اس فعل پر کوئی ندامت نہیں ہے بلکہ اس کا کہنا ہے کہ اس کو اس بات پر کوئی افسوس نہیں ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ ماں لڑکے کو ہر وقت ’پب جی‘ گیم کھیلنے سے منع کرتی تھی۔ ناراض لڑکے نے نہ صرف اپنی والدہ کو گولی مار قتل کر دیا بلکہ پکڑے جانے تک ایسے طرح پیش آتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں!

لڑکے نے والد کے لائسنس یافتہ پستول سے اپنی والدہ کو گولی ماری اور اس کے تین دن بعد تک وہ بہت آرام سے اور بغیر کسی فکر کے جشن مناتا رہا۔ اس دوران اس نے اپنی بہن کو دھمکیاں دیں، دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا اور اسی گھر میں ان کے ساتھ پارٹی کی جہاں والدہ کی لاش پڑی تھی، لاش کی بدبو چھپانے کے لیے وہ روم فریشنر چھڑکتا رہا۔ راز کھلنے پر پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی۔

پولیس نے جب اس قاتل لڑکے سے سوالات کیے تو اس نے لاپروا انداز میں جوابات دیے، پولیس کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اس کی ماں گیم کھیلنے سے بہت روک ٹوک کرتی تھی جس سے وہ تنگ تھا اور رات کو جب اس کی ماں سو گئی تو باپ کے پستوں سے اس پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

قاتل بیٹے نے یہ بھی بتایا کہ اس نے گھر میں موجود اپنی بہن کو ڈرایا دھمکایا کہ اگر کسی کو ماں کے بارے میں بتایا تو وہ اسے بھی مار ڈالے گا، اس دوران وہ باہر سے اپنی بہن کے لیے کھانا لاتا تھا، اور کئی بار کھانا گھر میں بھی بنایا، ماں کا فون میرے پاس تھا جب کسی کا فون آتا تو میں اپنے فون سے جواب دیتا کہ ماں دیدی سے ملنے گئی ہے جب آئے گی تو بتادوں گا۔ ساتھ ہی اس نے بتایا کہ لاش کی بدبو دور کرنے کیلیے کئی بار گھر میں ایئرفریشنر کرتا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: ماں کو قتل کرنے پر افسوس نہیں، جنونی اور سفاک بیٹے کا پولیس کو جواب

پولیس نے لڑکے سے سوال کیا کہ کیا اسے اپنی ماں کو قتل کرنے کا افسوس ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں اسے اس بات کا کوئی افسوس نہیں ہے، پولیس نے جب اس سے پوچھا کہ اگر والد روکتے اور پٹائی کرتے تو وہ کیا انہیں بھی گولی ماردیتا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ اب کیا بتاؤں، وہ تب دیکھا جاتا جب وہ منع کرتے، کیا تم نے جیل جانے کا سوچاَ؟ لڑکا بولا نہیں اتنا نہیں سوچتا۔
دوسری جانب ملزم لڑکے کے باپ نے بیٹے کو معاف کرنے کی درخواست کی ہے، انہوں نے کہا کہ بیوی چلی گئی، اب اکلوتا بیٹا نہیں جانا چاہیے۔ والد کے مطابق پورا گھر اجڑ گیا ہے اور کوئی نہیں بچا، ایک بیٹا ہی بچا ہے اس لئے اس کو معاف کر کے ہی خاندان کو بچایا جا سکتا ہے۔

چارلس ڈکنز: عہد ساز شخصیت، عظیم ناول نگار

0

شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جنھوں نے سماجی برائیوں، اپنے عہد میں نظام کی خامیوں اور مسائل کو اپنی تخلیقات میں اجاگر کرکے فرسودہ نظام کو بدلنے میں‌ اپنا کردار ادا کیا۔ 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

چارلس ڈکنز ایک ناول نگار، صحافی ہی نہیں سماج کا بڑا ناقد اور صاحبِ بصیرت شخص تھا جسے انیسویں صدی کا ایک اہم اور با اثر ادیب کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی نگارشات میں اپنے وکٹورین دور کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز خاندان لندن کے ایک نچلے طبقے کے رہائشی محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس خاندان کے مالی حالات نہایت خراب ہوچکے تھے۔ والد مقروض ہوتے چلے گئے اور پھر مقدمہ ہار کر جیل جانا پڑا۔

اس واقعے کے بعد 12 سالہ چارلس کو جوتے رنگنے والی فیکٹری میں ملازمت کرنے کی خاطر اسکول چھوڑنا پڑا۔ یوں اسے زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے جبر اور استحصال بھی برداشت کیا اور یہی دکھ اور مسائل کے ساتھ معاشرتی رویّے چارلس کی تحریروں میں‌ بھی شامل ہوگئے۔

حالات اچانک بدلے اور دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن پھر قسمت نے مذاق کر ڈالا اور چارلس کو ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ لیکن یہی ملازمت اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی، چارلس نے لکھنا شروع کردیا اور خوب نام و مقام بنایا۔

اس کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہو چکا ہے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ 2012ء میں چارلس ڈکنز کی 200 ویں سال گرہ منائی گئی تھی اور اس موقع پر برطانیہ میں شان دار تقاریب منعقد کی گئی تھیں۔

ٹی ٹوینٹی: جنوبی افریقہ میں بھارت کیخلاف ریکارڈ ہدف حاصل کرلیا

0

جنوبی افریقہ نے پہلے ٹی ٹوینٹی میں بھارت کو 7 وکٹوں سے شکست دے کر ریکارڈ ہدف حاصل کرلیا۔

دہلی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹی 20 میچ میں بھارت نے مقررہ اوورز میں پہلے بیٹںگ کرتے ہوئے 4 وکٹوں کے نقصان پر 211 رنز بنائے جواب میں جنوبی افریقہ نے مطلوبہ ہدف 19.1 اوورز میں تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔

وین در ڈوسن نے 75 اور ڈیوڈ ملر نے 64 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، اوپنر کوئنٹن ڈی کاک 22، ڈیوئن پریٹورئس 29 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔

بھارت کی جانب سے بھونیشور کمار، اکشر پٹیل اور ہرشل پٹیل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

اس سے قبل بھارت نے پہلی اننگز میں 211 رنز بنائے تھے، ایشان کشن نے 75 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی تھی، رتو راج گائیکوارڈ 23، شریاس ایئر 36 رنز بنا کر نمایاں رہے تھے۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے کیشو مہاراج، نورٹجی، وین پارنیل اور ڈیوئن پریٹورئس نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی تھی۔

”تارک مہتا کا الٹا چشمہ“ کے شائقین کیلیے بُری خبر آگئی

0
دیا بین

ممبئی: مشہور بھارتی ڈرامہ سیریل ”تارک مہتا کا الٹا چشمہ“ کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کردار ”دیا بین“ کی واپسی مشکل ہوگئی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ڈرامے میں ”دیا بین“ کے کردار کے لیے آرٹسٹ کی تلاش شروع کر دی گئی ہے، جلد آڈیشن لیے جائیں گے۔ دشا وکانی نے ڈرامے میں واپسی سے انکار کر دیا ہے۔

ڈرامے کے پروڈیوسر اسیت کمار نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دشا وکانی ڈرامے میں واپس نہیں آ رہیں، ”دیا بین“ کے کردار کے لیے جلد ہی نیا چہرہ سامنے آئے گا۔

مزید پڑھیں: 50 روپے کمانے والے ”تارک مہتا کا الٹا چشمہ“ کے مشہور کردار

دشا وکانی ”تارک مہتا کا الٹا چشمہ“ میں سب سے مقبول کردار نبھا رہی تھیں۔ انہوں نے 2019 میں سیریل کو الوداع کر دیا تھا۔

گزشتہ ماہ پروگرام پروڈیوسر اسیت کمار نے بتایا تھا کہ ”دیا بین“ کے کردار کو واپسی لانے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، گزشتہ دو برس ہمارے لیے کافی مشکل ثابت ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں کہ وہ واپس آئیں گی یا نہیں لیکن کوشش جاری ہے اور صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے۔

ڈرامے میں ”تارک مہتا“ کا کردار نبھانے والے سلیش لودھا بھی سیریل میں مزید کام کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ سلیش لودھا نے 14 سال بعد ڈرامہ سیریل کو خیرباد کہہ دیا۔

عامر لیاقت کی تدفین وصیت کے مطابق کی جائے گی

0

رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے احاطے میں کی جائے گی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق منیجر اوقاف حاجی پنو خان کا کہنا ہے کہ عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں عامر لیاقت کی قبر کی تیاری کا کام شروع کردیا گیا ہے۔

رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین انتقال کر گئے

منیجر اوقاف کا کہنا ہے کہ مرحوم کی تدفین کا وقت مقرر نہیں ہے ورثا کی ہدایت پر قبر تیار کی جارہی ہے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ عامر لیاقت نے اپنے وزارت کے دوران اپنی قبر کی جگہ رقم کے عوض مختص کروادی تھی جس احاطے میں تدفین ہوگی وہ شیخ لیاقت حسین کمپاؤنڈ کے نام سے ہے۔

ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ کمپاؤنڈ میں چار تدفین ہوچکی ہیں جبکہ 2007 میں عامر لیاقت نے 5 قبریں الاٹ کرائی تھیں، احاطے میں عامر لیاقت حسین کے والدین، نعت خواں خورشید احمد اور پہلی اہلیہ کے والد مدفن ہیں۔

عامر لیاقت کا انتقال: صدر اور وزیراعظم سمیت سیاسی رہنماؤں کا اظہار افسوس

واضح‌ رہے کہ مذہبی رہنما اور رکن اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین آج سہ پہر انتقال کرگئے انہیں‌ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں‌ ڈاکٹروں‌ نے ان کی موت کی تصدیق کی.

امریکا میں فوجی طیارہ گر کر تباہ

0

امریکا میں فوجی مال بردار طیارہ گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار 5 افراد ہلاک ہوگئے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کیرولینا کی امیریل کاؤنٹی میں امریکی فوجی مال بردار طیارہ گر کر تباہ ہوگیا ایم وی 22 آسپرے نامی طیارے میں 5 فوجی سوار تھے۔

امریکی حکام کے مطابق طیارہ حادثے میں 4 فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ پانچواں شخص تاحال لاپتا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق طیارے میں کسی قسم کا جوہری مواد موجود نہیں تھا۔

Five people presumed dead' after MV-22B Osprey with 3rd Marine Air Wing  crashes in California | Daily Mail Online

امریکی میڈیا کا بتانا ہے کہ ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس میں پانچ افراد سوار تھے اور چار ہلاک ہو گئے تھے۔

 لیفٹیننٹ ڈوین کیمپا کے ایک بیان کے مطابق طیارہ دوپہر 12بجکر 25 منٹ پر حادثے کا شکار ہوا۔

کیمپا نے کہا کہ جب اوسپرے گر کر تباہ ہوا تو جہاز میں پانچ میرینز موجود تھے تاہم وہ فوری طور پر ان کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کرسکتے۔

پہلی مسلم ویب سیریز ’مس مارول‘ میں تین پاکستانی گانے شامل

0

نیو یارک: مداحوں کا انتظار ختم، مارول سنیمیٹک اسٹوڈیوز اور ڈزنی پلس کی پہلی مسلم اور پاکستانی ویب سیریز ’مس مارول‘ ریلیز ہوگئی ہے جس میں تین پاکستانی گانے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ویب سیریز ’مس مارول‘ کے پہلے سیزن کی پہلی قسط 8 جون کو دنیا بھر میں ’ڈزنی پلس‘ پر ریلیز کردی گئی ہے، تاہم پاکستان میں مداحوں کو ابھی مزید انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ اسے فی الحال پاکستان میں ریلیز نہیں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسے پاکستان میں بھی جلد ہی سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

’مس مارول‘ اب تک کی امریکا یا ہالی وڈ کی وہ پہلی ویب سیریز ہے، جس میں پاکستانی کرداروں کو مثبت روپ میں دکھایا جا رہا ہے، ویب سیریز میں کی کہانی ’کمالہ خان‘ نامی پاکستانی نژاد نیوجرسی کی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو کہ منفرد صلاحیتوں کی مالک ہوتی ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی ویب سیریز کی کہانی نہ صرف پاکستانی بلکہ مسلم لڑکی کے گرد گھومے گی۔

ویب سیریز میں کمالہ خان کا کردار پاکستانی نژاد امریکی اداکارہ ایمان ویلانی نے ادا کیا ہے، ویب سیریز میں دیگر پاکستانی اداکار  نمرہ بچہ، مہوش حیات، فواد خان اور ثمینہ احمد بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ویب سیریز ’مس مارول‘ میں کوک اسٹوڈیو کا مشہور گانا شامل

’مس مارول‘ کے پہلے سیزن میں 6 قسطیں ہیں اور اس کی پہلی قسط 8 جون کو ریلیز ہوئی، ویب سیریز میں کوک اسٹوڈیو کا گانا ‘پیچھے ہٹ’ شامل کیے جانے کی تصدیق کی گئی تھی، تاہم اب کہا جارہا ہے کہ پہلی قسط میں 15 گانوں کو شامل کیا ہے جن میں تین پاکستانی گانے بھی شامل ہیں۔

پہلی قسط میں شامل پاکستانی گانوں میں شہرہ آفاق احمد رشدی کا گانا ’کوکو کورینا‘، مقبول اداکارہ ناہید اختر کا ’سوہنیے آئی لو یو‘ اور ’کوک اسٹوڈیو سیزن 14‘ کے ’کنا یاری‘ سے شہرت حاصل کرنے والی بلوچ گلوکارہ ایوا بی کا گانا ’روزی‘ بھی شامل کیا گیا ہے۔

ایوا بی نے مس مارول میں اپنے گانے کی شمولیت تصدیق کی ہے، انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر مس مارول میں شامل اپنے گانے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اسے اپنے اور ملک کے لیے فخر قرار دیا ہے۔

’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

0

برطانوی ماہرِ تعلیم اور مستشرق سَر تھامس واکر آرنلڈ کو ہندوستان اور بالخصوص برطانوی دور کے مسلمانوں میں‌ بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سر سیّد احمد خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے دوستوں میں‌ شامل رہے اور اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلق نہایت مفید مضامین اور کتب تحریر کیں۔

پروفیسر آرنلڈ نے سر سیّد احمد خان کے اصرار ہی پر نے کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ وہ شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کے استاد بھی تھے۔

نام وَر مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر پروفیسر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب وہ عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

پروفیسر آرنلڈ کا سنِ پیدائش 1864ء ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں اس انگریز ماہرِ تعلیم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علیگڑھ میں بطور استاد اپنے فرائض‌ انجام دینا شروع کیے۔ 1898ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1909ء میں انھیں برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ کا تعلیمی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 1921ء سے 1930ء تک انھوں نے لندن یونیورسٹی میں مشرقی علوم کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

1921ء ہی میں برطانوی سرکار نے انھیں‌ ’’سَر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے قریب رہنے والے سر آرنلڈ 1930ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

علّامہ اقبال سے سر آرنلڈ نے ہمیشہ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا۔ مشہور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے ہی علّامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے ان کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنے استاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ جب ہندوستان چھوڑ کر انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔