تازہ ترین

فلم ایکٹریس کی ڈاک

دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے، جس نے کلرکی کی اسامی کے لیے اشتہار دے رکھا ہو۔ اور اس سے دوسرے درجے پر اس شخص کی ڈاک ہوتی ہے جس نے امساک کی گولیاں بطور نمونہ مفت کا اعلان کر رکھا ہو۔ لیکن دل چسپ ترین ڈاک صرف دو شخصیتوں ہی کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر کی ڈاک اور فلم ایکٹرس کی ڈاک۔

جس قسم کے خطوط ایکٹرس کو روزانہ موصول ہوتے رہتے ہیں اس کے چند نمونے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔

فلمی ایڈیٹر کا ایک خط

محترمہ، تسلیم!
’’فلم کی بات‘‘ تازہ پرچہ ارسال خدمت ہے، سرورق پر اپنی سہ رنگی تصویر ملاحظہ فرمائیے اور یاد رہے کہ اس ہفتہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی تصویر شائع کرنا ضروری تھا کیونکہ رسالہ کے اندر اس کی وہ تقریر درج ہے جو اس نے فلموں کی حمایت میں کی۔ لیکن میری قربانی دیکھیے کہ میں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے آپ کی تصویر شائع کی کہ اگر میں غازی موصوف کی تصویر شائع کرتا تو ان کی فلمی تقریر کے علاوہ انٹریو کانفرنس کی مناسبت سے یہ پرچہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتا۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی اور آپ کی تصویر کی مناسبت سے اس تازہ فلم ’’تیر کی نوک‘‘ پر بھی بسیط تبصرہ کر دیا ہے جس میں آپ نے ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔

آپ اس تبصرے کو غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ پارٹ کے اندر جہاں جہاں آپ نے لغزشیں کی ہیں۔ میں نے ان لغزشوں کو آپ کی بہترین خوبیاں ثابت کیا ہے۔ دوست مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم نے مس……. کو دنیا بھر کی ایکٹرسوں سے بڑھا دیا ہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ محترمہ فی الحقیقت دنیا بھر کی ایکٹرسوں کی سرتاج ہیں اور عنقریب بالی وڈ والے آپ کو بلانے والے ہیں۔

پچھلی دفعہ جب میں نے آپ کی ایکٹری پر ایک ہنگامہ خیز مضمون لکھا تھا۔ اس وقت سے آپ کے دشمن میرے رسالے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے، آپ نے جو دس روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا اس سے کاتب کا بل بھی نہ چکایا جا سکا۔ پانچ اور ہوتے تو کم ازکم یہ بلا تو سَر سے ٹل جاتی۔

بہرحال آپ میرا خیال رکھیں نہ رکھیں، مجھے تو آپ کی ترقی کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور خواہ میرے رسالے کی اشاعت کتنی ہی کیوں نہ گھٹ جائے، میں حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔

اور سچ پوچھو تو یہ آپ پر کوئی احسان بھی نہیں کیونکہ آپ کے فنی اوصاف پر مضامین لکھنا فن کی خدمت کرنا ہے۔ اور حاضریٔ حسن کی تعریف پر خامہ خرسائی کرنا مصورِ فطرت کے شاہکار کا اعتراف۔ ساٹھویں سالگرہ مبارک!
نیاز مند ایڈیٹر

ایک بیرسٹر کا خط

مس صاحبہ!
آداب عرض
اگر آپ اخبارات میں عدالتی کالموں کا مطالعہ کرتی ہیں تو ضروری بات ہے کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں، کیونکہ میں نوجوان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے شہر کا ایک کامیاب ترین قانون داں ہوں بلکہ ملک کے ہر حصے میں بلایا جاتا ہوں۔

باعثِ تحریر آنکہ میں نے ایک مقامی رسالہ ’’داستان فلم‘‘ میں آپ کے خلاف ایک مضمون پڑھا ہے، جو تعزیرات فلم کی دفعہ 99 کی زد میں آتا ہے۔ اور ایڈیٹر پر ’’ازالہ کی حیثیت فلمی‘‘ کا دعوی دائر کیا جاسکتا ہے، رسالہ ایک بڑے سرمایہ دار کی ملکیت ہے اور اس سے بہت بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میری مؤکل بننا چاہیں تو میری قانونی خدمات حاضر ہیں اور پانچ ہزار روپے کی ڈگری مع حرجہ خرچہ کے دلانے کا یقین دلاتا ہوں۔

باقی رہا میرے محنتانہ کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ مجھے اپنے نیاز مندوں ہی میں شمار کیجیے اور اس وہم میں نہ پڑجائیے کہ میں نقد معاوضہ کے لالچ میں آکر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ ہے کہ زرِ نقد کی بجائے محنتانہ کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور اصولاً مجھے اور آپ کو کسی نہ کسی صورت پر متفق ہوجانا چاہیے۔ تشریح کی ضرورت نہیں، آپ ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون کی رُو سے کوئی مؤکل اپنے وکیل سے محنتانہ ادھار نہیں کرسکتا۔

یعنی محنتانہ نقد ہو یا بصورتِ ’’جنس‘‘ ہر حالت میں پیشگی لینا لازمی ہے۔ ورنہ وکیل پر حکومت مقدمہ چلا دیتی ہے۔ میں کنگال بنک کے مشہور مقدمۂ غبن کے سلسلے میں کلکتہ آرہا ہوں۔ ارشاد ہو تو قدم بوسی کا فخر حاصل کروں۔
بندہ
بیرسٹر ایٹ لا، عمر 25 سال

شاعر کا خط

جانِ جہاں!
خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا، جب کہ شعراء کی قدر تھی، قدر دان اُمراء کسی شاعر کے ایک شعر پر خوش ہوکر اسے زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے تھے۔ اب تو زبانی داد بھی بمشکل ملتی ہے۔ بقول حضرت اکبرؔ مرحوم؛

بوسہ کیا ان سے گلوری بھی نہیں پاتا ہوں
میں روز انہیں جاکے سنا آتا ہوں
وہ یہ کہتے ہیں، کہ واہ خوب کہا ہے واللہ
میں یہ کہتا ہوں کہ آداب بجا لاتا ہوں

میں نے آپ کی شان میں نصف درجے قصیدے لکھ کر فلمی رسالوں میں شائع کرائے ہیں اور ان کی کاپیاں بھی آپ کی خدمت میں بھجواتا رہا۔ لیکن آپ سے اتنا نہیں ہوسکا کہ شکریے کی چٹھی ہی ارسال کر دیتیں۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر مرحمت فرمائیے۔ لیکن جواب نہ ملا۔ کیا قدر دانیِ فن اسی کا نام ہے؟
سنا ہے آپ کی سال گرہ قریب آرہی ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک قصیدہ لکھ کر خود حاضر ہوں گا۔
والسلام
خادم

(اردو کے معروف مزاح نگار، کالم نویس اور صحافی حاجی لق لق کی شگفتہ بیانی)

Comments

- Advertisement -