اسلام آباد :وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے سے کسی مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا، پاکستان نے مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے سارک کانفرنس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آج سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کا اجلاس تھا جس میں تمام سارک وزرائے داخلہ نے شرکت کی اور اہم سیاسی امور سمیت دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’’اجلاس کے اختتام پر بھارتی وفد کی جانب سے ملاقات کا پیغام ملا تاہم میں نے دیگر مصروفیات کے باعث ملاقات سے معذرت کی، مگر اجلاس کے دوران دیگر وزرائے داخلہ سمیت بھارتی وزیر داخلہ سے بھی مصافحہ کیا‘‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دوران اجلاس بھارتی وزیر داخلہ کی جانب سے پاکستان پر تنقید کی گئی اور نام لے کر کہا گیا کہ ’’ممبئی، پٹھان کوٹ اور ڈھاکا میں دہشت گردی ہوئی، جس پر میں نے پاکستان کے مؤقف کو بیان کرتے ہوئے وزرائے داخلہ کو بتایا کہ اب تک سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ پاکستان بنتا آیا ہے۔ دہشت گردی کسی ملک میں بھی ہو وہ قابل مذمت ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہاکہ ’’آزادی کی جدوجہد کرنے والے شہریوں پر فائرنگ کی جارہی ہے جو کھلی دہشت گردی ہے، انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک اور ہم میں یہ فرق ہے کہ وہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے افراد کو دہشت گرد کہتا ہے جبکہ ہم فساد پھیلانے والے کو دہشت گرد سمجھتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ’’دنیا کا کوئی بھی قانون نہتے لوگوں پر اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہٰیں دیتا آزادی کی جدوجہد کرنے والے شہری اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق اپنی آزادی چاہتے ہیں‘‘۔
چوہدری نثار نے مزید بتایا کہ ’’سارک کانفرنس میں روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی معاملات پر گفتگو نہیں ہوئی، دوران اجلاس کسی ملک کے وزیر داخلہ کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کسی ملک کا نام لے تاہم بھارتی وزیر داخلہ نے جو الزامات لگائے اُن کا اشارہ پاکستان کی طرف ہی تھا۔ جس میں ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ملک کے مفاد اور موقف کی تائید کرتے ہوئے تمام الزامات کا جواب دیا صرف ایک ملک کے علاوہ بقیہ تمام سارک ممالک نے میرے خیالات کو تسلیم کیا‘‘۔
چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ بطور چیئرمین اجلاس میں پاکستان کے مؤقف کو بیان کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اُسے بیان کیا، اپنے طور پر صورتحال حال کو کلئیر کرنے میں کوئی گنجائش نہیں رکھی اور دنیا کے سامنے پاکستان کے مؤقف کو کھل کر بیان کیا۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے پر الزمات لگانے سے کسی مسئلے کا حل نہیں نکالا جاسکتا، اگر مسائل کو حل کرنا ہے تو اس کے لیے مذاکرات کے راستے پر ہی چلنا پڑے گا۔ وزیر داخلہ نے بھارت پر واضح کیا کہ ’’پاکستان نے کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، اس عمل کو ہماری طرف سے نہیں بلکہ پڑوسی ملک کی جانب سے روکا گیا ہے، ہم آج بھی عزت اور وقار کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
چوہدری نثار علی خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’پاکستان کے پاس بھی دہشت گردی کے ثبوت موجود ہیں، ہمارے دیگر شہروں میں بھی پڑوسی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہیں اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کررہی ہیں‘‘، انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران میں نے سارک وزرائے داخلہ کو مشورہ دیا کہ ’’ ویزا اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اجلاس کے علاوہ ممالک کے درمیان رابطوں کے لیے مٹینگز کا انعقاد ضروری ہے، میرے مشورے کو سوائے ایک ملک کے تمام ممالک نے حامی بھری ہے‘‘۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’’جتنی فیس پاکستان کے شہریوں سے لی جائے گی ہم بھی اتنی ہی فیس لیں گے اور جیسا رویہ ہمارے شہریوں سے رکھا جائے گا ہم بھی وہی کرنے پر مجبور ہوں گے، چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’’سارک وزراء داخلہ کا آئندہ اجلاس 2017 میں سری لنکا میں منعقد ہوگا۔