تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

جب کراچی کی دیواریں کسی ”ظِلُّ اللہ“ کو پکارتی نظر آئیں!

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسکندر مرزا کے دور میں ایک سنسنی خیز اور ڈرامائی باب اُس وقت رقم ہوا تھا، جب اپنے سیاسی مستقبل کی خاطر ان کا بنایا گیا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد اسکندر مرزا متحدہ مملکت میں مختلف اعلیٰ عہدوں اور منصب پر فائز رہے اور 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے۔ انھوں نے سیاسی بحران کی آڑ لے ملک کو پہلے مارشل لا کی طرف دھکیلا اور 1958ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے جلا وطن کردیا۔ اسکندر مرزا کبھی وطن واپس نہ آسکے اور لندن میں عمر تمام کی۔

کہتے ہیں اپنے دور میں اسکندر مرزا خود کو اس قدر مضبوط کر چکے تھے کہ سیاست داں، نواب اور عمائدین سمیت بڑے لوگ ان کی نظرِ کرم کے خواہاں‌ رہتے، لیکن پھر حالات بدلے اور وہ اپنے ہی جال میں پھنس گئے۔

یہاں‌ ہم مولوی محمد سعید کی خود نوشت آہنگِ بازگشت سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جس سے اسکندر مرزا کے ہوسِ اقتدار اور اس وقت کے سیاسی حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"مشرقی بازو کے سیاست دان یہ چاہنے لگے تھے کہ مغرب کو ایک وحدت میں سمونے کے بہ جائے کیوں نہ پورا ملک وحدانی طرزِ حکومت کے تحت کر دیا جائے۔”

"الطاف نے ”تصورِ عظیم“ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔ جو طائفہ اب تک وفاقی طرز کا داعی تھا، وہ مغرب کو وحدت میں ڈھلتے دیکھ کے اس سے بدکنے لگا حتیٰ کہ ون یونٹ کے مؤیَّد جناب حسین سہروردی بھی اس کے مخالف ہو گئے۔ چوہدری محمد علی بہرکیف ایک دستور بنانے میں کام یاب ہوگئے۔”

"چوہدری صاحب کا یہ کارنامہ واقعی قابلِ داد تھا کہ جس جنس کی تلاش میں قوم 10 برس سے نکلی ہوئی تھی، وہ ان کے عہد میں دست یاب ہوگئی، لیکن قوم کے سر سے شامتِ اعمال ابھی ٹلی نہیں تھی۔ اس کاروانِ بے موسیٰ کو ابھی کچھ اور ویرانوں میں بھٹکنا تھا۔ 1956ء کا دستور ایک کشتی میں سجا کے اسکندر مرزا کے محل تک لے جایا گیا۔ انھوں نے دستخط تو اس پر کر دیے اور اس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا تاج اپنے فرقِ فرخ جمال پر سجا بھی لیا، لیکن ان کی نیت کچھ اور تھی۔ اعمال اگر نیتوں ہی کی ایک جھلک ہوتے ہیں، تو کراچی کے در و بام سے وہ نیتیں عیاں تھیں۔ رات کے سناٹوں میں اس شہر کی دیواریں پکار اٹھیں کہ اسکندر مرزا کو بادشاہ بنایا جائے۔”

"یہ اشتہار اس کثرت سے دیواروں کی زینت بنے کہ فلمی ستاروں، مہ پاروں، شمشیر زنوں اور تاج داروں سے جو جگہ بچ گئی، وہ اسکندر مرزا کے نقیبوں نے اپنے شاہ کی آمد کے اعلان کے لیے وقف کر لی۔ صبح تک جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوگئے اور یوں دکھائی دینے لگا کہ جیسے کراچی کی ہر دیوار کسی ”ظِلُّ اللہ“ کی منتظر ہے۔”

Comments

- Advertisement -