تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

آپ کو وہ زمانہ یقیناً یاد ہوگا جب بڑے بڑے گھروں میں خوبصورت دالان ہوا کرتے تھے۔ دالان وہ کشادہ اور وسیع راہداریاں ہوتی ہیں جو آج کل کی تنگ راہداریوں کی طرح صرف گزرنے کے کام نہیں آتیں بلکہ یہاں بیٹھنے کا سامان رکھ کر اکثر محفلیں سجائی جاتی تھیں اور بچے ان دالانوں میں کھیلا کرتے تھے۔ ان دالانوں پر چھت بھی ہوتی ہے جو عموماً محراب دار ہوتی ہے۔

ایران کے کئی شہروں میں ایسے بازار موجود ہیں جو محراب دار دالانوں کی شکل میں ہیں یعنی وسیع اور چوڑی راہداریوں میں دکاندار اپنا خوانچہ سجائے بیٹھے ہیں۔

لیکن اب یہ مقام شاذ ہی کہیں نظر آتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، بدلتے ہوئے طرز زندگی اور کم جگہ کے باعث رہائش کے لیے فلیٹوں اور چھوٹے گھروں کی تعمیر نے صرف ایک دالان تو کیا ہمارے رہنے کے لیے مناسب کھلی جگہ بھی چھین لی۔ ایک گنجان آباد شہر میں رہنے والا شخص شاید ہی بتا سکے کہ اس نے آخری بار آسمان پر چاند کب دیکھا تھا؟ یا وہ کون سا دن تھا جب اس نے آخری بار سورج ڈھلتے دیکھا؟ یا جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو اسے ابلتے گٹروں، جا بجا کھڑے پانی اور لوڈ شیڈنگ کے علاوہ مٹی کی وہ سوندھی خوشبو بھی محسوس ہوئی جو بارش کا پہلا قطرہ زمین پر پڑتے ہی چہار سو پھیل جاتی ہے؟

آپ سمیت یقیناً بہت سے افراد ان سوالات پر تذبذب کا شکار ہوجائیں گے۔

تو چلیں پھر آپ کو ان لوگوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے شاید ان سب کو محسوس کیا ہو تب ہی ان چیزوں کو یاد کروانے کے لیے انہوں نے اپنا تصوراتی اور تخیلاتی دالان تشکیل دے ڈالا۔

چھ افراد پر مشتمل پاکستانی تخلیق کاروں کی تخلیق ‘دالان‘ آج کل لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں ہونے والی لندن ڈیزائن بینالے 2016 میں جلوہ گر ہے جو مشرقی و مغربی افراد کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔

 یہ ڈیزائن کراچی کے کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کے تخلیق کاروں نے تشکیل دیا ہے جس میں ایک تخیلاتی دالان کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسٹوڈیو اس سے قبل بھی ’نروان‘ اور ’زاویہ‘ نامی ڈیزائن تشکیل دے چکا ہے جو ادب اور مصوری کی سرحدوں کو ملا کر تشکیل دیے گئے ہیں۔

یہاں کی سب سے منفرد چیز گھومنے والے اسٹولز ہیں جنہیں لٹو کا نام دیا گیا ہے۔ چھت سے اسکرین پرنٹ (ڈیجیٹل سطح پر سیاہی یا دھات سے تصویر کشی) کے ذریعہ تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جن میں پاکستانی ثقافت سے جڑے بچوں کے مختلف کھیلوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

لندن میں ہونے والی اس نمائش کا مرکزی خیال آرٹ کے ذریعہ یوٹوپیا (خیالی دنیا) تشکیل دینا ہے جہاں فنکار اپنے خیالات و تصورات کو حقیقت میں ڈھال کر پیش کرسکتے ہیں۔ ایک فنکار کے تصور کی کوئی سرحد نہیں لہٰذا یہاں پیش کیے گئے نمونہ فن ایسے ہیں جو عام افراد کی سوچ و ادراک سے بالکل بالاتر ہے۔

دالان کے تخلیق کاروں کی ٹیم نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستانی ثقافت کو بیرون ملک پیش کرتے ہوئے نہایت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ’لوگ یہاں آتے ہیں اور جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تشکیل دیا گیا نمونہ فن دراصل پاکستانی ثقافت و روایت کا حصہ ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں‘۔

سلمان جاوید، فائزہ آدم جی، علی حسین، مصطفیٰ مہدی، حنا فینکی، اور زید حمید پر مشتمل یہ تمام فنکار انڈس ویلی اسکول آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں اور چونکہ اس ٹیم میں ماہر تعمیرات (آرکیٹیکچر)، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، اور گرافک ڈیزائنر شامل ہیں لہٰذا ان تمام علوم کی آمیزش سے تخلیق کیا ہوا فن پاکستانی فن و مصوری کو نئی جہتیں عطا کررہا ہے۔

لندن میں جاری اس 10 روزہ نمائش میں ’دالان‘ کو یہاں پیش کی گئی بہترین 6 تخلیقات میں سے ایک کا اعزاز مل چکا ہے۔ کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کی ٹیم اس سے قبل گذشتہ برس بھی دبئی ڈیزائن ویک میں پاکستانی پویلین کے ذریعہ اپنا فن پیش کر چکی ہے جسے بہترین پویلین کے اعزاز سے نوازا گیا۔

دالان کی روایت و رومانویت نے دراصل اردو شاعری کو بھی کافی متاثر کیا ہے۔

کئی شاعر اپنی شاعری میں محبوب کے ہجر و فراق میں دالان کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

۔ جون ایلیا

دالان کے تخلیق کاروں کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان کے فن کو دیکھیں تو وہ اس بھولے بسرے وقت کو یاد کریں جب لمبی دوپہریں اور ٹھنڈی شامیں دالانوں کے سائے میں گزرتی تھیں اور انہیں احساس ہو کہ زندگی کی تیز رفتار چال کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں وہ اپنی ثقافت کے خوبصورت پہلوؤں کو بھی بھلا بیٹھے۔

برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر سید ابن عباس نے بھی نمائش کا دورہ کیا اور پاکستانی تخلیق کاروں سے ملاقات کی۔ ان کے حیرت انگیز فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’آپ لوگ پاکستان کا اصل چہرہ ہیں اور دراصل آپ ہی پاکستان کی درست اور حقیقی نمائندگی کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح ان فنکاروں نے پاکستانی ثقافت اور طرز زندگی کو اجاگر کیا ہے یہ کوشش نہایت قابل تعریف ہے۔

پاکستان کی دم توڑتی روایات کو زندہ کرنے کی کوششوں کی اس مثال کا اب تک کئی ہزار افراد دورہ کر چکے ہیں اور وہ اس اچھوتے اور سادہ ڈیزائن کو دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔

لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں جاری یہ نمائش مزید ایک روز تک جاری رہے گی اور ہر خاص و عام کے لیے دعوت عام ہے۔

Comments

- Advertisement -