تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

پیرس کے عام باشندوں‌ کی نظروں‌ سے اوجھل نگری کا تذکرہ

خوش بُو میں ڈوبے، رنگ و نُور کا پیراہن اوڑھے پیرس کی ایک شناخت آرٹ اور کلچر بھی بھی ہے۔

دنیا بھر میں قسم قسم کے پرفیومز کی تیاری اور خوش بُو کی خرید و فروخت کے لیے مشہور فرانس کا یہ شہر اپنی تہذیبی، ثقافتی رنگا رنگی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔

اس شہر میں جہاں قدیم عمارتیں اور آثار دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں، وہیں زیرِ زمین بھی رہائشی کمرے، قدیم سرنگیں اور قبرستان وغیرہ موجود ہیں جو کئی سال پہلے دریافت ہوئے، لیکن گزشتہ دہائی میں ان سرنگوں سے متعلق ایک عجیب انکشاف ہوا۔

یہ 2004 کی بات ہے، جب پولیس نے اس شہر کے ایک عجائب گھر کے نیچے سنیما دریافت کیا، جہاں خفیہ طور پر لوگ اکٹھے تھے۔

یہ ‘‘سنیما ہال’’ پیرس کی سیکڑوں میل لمبی سرنگ میں بنایا گیا تھا، جسے کسی زمانے میں لاطینیوں نے کھودا تھا۔ ایسی کئی سرنگیں اس زمانے میں انسانی آمدورفت اور سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

ماہرینِ آثار کے مطابق 1700 میں پیرس کے باشندوں نے ان سرنگوں میں مرنے والوں کی تدفین شروع کردی۔ ایک وقت آیا جب یہ سلسلہ تمام ہو گیا اور یہاں ویرانی نے ڈیرے ڈال لیے جس کا فائدہ آدم بیزاروں کے ایک گروہ نے اٹھایا، وہ ان سرنگوں میں وقت گزارنے لگے۔

حیرت کی بات ہے کہ کب، کیوں اور کس نے ان سرنگوں میں زمین پر بسے انسانوں سے اوجھل رہ کر ایک دنیا آباد کرنے کی ٹھانی ہو گی ، مگر غالب امکان یہی ہے کہ چند دنیا سے بیزار انسانوں یا ان کے ایک گروہ نے زیرِ زمین سرنگوں میں آنا جانا شروع کیا ہو گا اور پھر یہاں مختلف ادبی اور تفریحی سرگرمیاں انجام دی جانے لگیں۔

یہ لوگ نہ صرف ناچ گانے، موسیقی کی محافل کا انعقاد کرتے بلکہ یہاں آرٹ اور کلچر سے متعلق سرگرمیاں انجام دی جاتیں جن میں تخلیق کاروں کی کتابوں، فلموں کی نمائش اور ان پر گفتگو کرنا شامل تھا۔ اس طرح یہ کہنا درست ہے کہ وہ فنونِ لطیفہ کے دلدادہ اور ادب و ثقافت سے جڑے ہوئے لوگ تھے جنھوں نے اس کی ابتدا کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انسانوں کا ہم خیال گروہ رہا ہو گا جو دنیا کے جھمیلوں سے بچتے ہوئے زندگی اپنے انداز سے بسر کرنا چاہتے تھے۔

ایک مقامی آرٹسٹ کے مطابق یہ سلسلہ 1980 کی دہائی میں شروع ہوا تھا، مگر بیرونی دنیا ایک مدّت تک اس بزم آرائی سے لاعلم رہی۔

اتفاق تھا کہ ایک روز پولیس ایک سرنگ میں اُس سنیما ہال تک پہنچ گئی جہاں کچھ لوگ آرٹ اور فلم سے متعلق اپنے ذوق و شوق کی تکمیل میں مگن تھے۔ تاہم ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ کھوج لگانے کے بعد پولیس نے کہا کہ یہ لوگ کسی بھی طرح شہر اور اس کے امن کے لیے خطرہ نہیں ہیں اور وہاں کوئی تخریبی سرگرمی یا غیر اخلاقی کام نہیں کیا جاتا۔

Comments

- Advertisement -