تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

ہم آج کا کام کل پر کیوں ٹال دیتے ہیں؟

آج کے کام کو کل پر ٹالنا، یہ وہ عادت بد ہے جو تقریباً ہر شخص کو ہے۔ بہت کم افراد ایسے ہیں جو آج کا کام آج نمٹا دیتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں بھی کبھی کبھار کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب وہ کاہلی کا شکار ہو کر کام کو ٹال دیتے ہیں۔

لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

اس کا جواب ہمیں ایک برطانوی مصنف اور تاریخ دان سرل نارتھ کوٹ پارکنسن نے سنہ 1942 میں پارکنسنز لا (پارکنسن کا قانون) نامی کتاب لکھ کر دیا۔ سرل پارکنسن کو مینجمنٹ کا ماہر کہا جاتا ہے، اس نے 60 کتابیں لکھیں جن میں سے پارکنسن لا کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے جبکہ اس میں لکھا ایک جملہ محاورے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

وہ کہتا ہے کہ جب ہم کسی کام کو کرنے کے لیے بہت سا وقت مختص کریں تو وہ کام پھیل جاتا ہے۔

.Work expands so as to fill the time available for its completion

اس کی مثال ہم یوں سمجھتے ہیں کہ فرض کریں آپ کو ایک خط لکھنا ہے جس کی ڈیڈ لائن رات 10 بجے ہے۔ آپ دوپہر 12 بجے سے اسے لکھنا شروع کردیتے ہیں لیکن آپ سب سے پہلے شاور لیتے ہیں۔

اس کے بعد ایک گھنٹے تک بہترین کاغذ کا انتخاب کرتے ہیں، اگلا ایک گھنٹہ آپ ایک بہترین قلم منتخب کرنے میں گزارتے ہیں اور اس دوران مختلف پینز کو آزما کر دیکھتے ہیں اور انہیں رد کردیتے ہیں۔

اس کے بعد آپ لکھنا شروع کرتے ہیں، لکھتے ہوئے آپ خوب سوچتے ہیں، ادھر ادھر سے ڈیٹا ڈھونڈتے ہیں، بہترین لفظ تلاش کرتے ہیں اور بالآخر رات کے 10 بجے تک آپ ایک بہترین خط لکھ لیتے ہیں۔

اس کے برعکس وہی خط لکھنے کے لیے اگر آپ کے پاس صرف 10 منٹ کا وقت ہو، تو آپ شاور لینے کا خیال دل سے نکال کر، جو کاغذ قلم ہاتھ لگے اسی پر خط لکھ ڈالتے ہیں اور 10 منٹ میں بھی اسے پورا کرلیتے ہیں۔

یہ وہی خط ہے جو وقت ہونے پر آپ نے 10 گھنٹوں میں لکھا، لیکن حقیقت میں یہ صرف 10 منٹ میں لکھا جاسکتا تھا، اور یہی وہ پارکنسن کا قانون ہے جس کے تحت جس کام کے لیے جتنا وقت مختص کیا جائے وہ کام اتنا ہی پیچیدہ اور وقت طلب بنتا جاتا ہے۔

یہ دراصل ہماری کام کو کل پر ٹالنے کی عادت نہیں، نہ ہی یہ ہماری کاہلی ہے، بلکہ یہ وہ غیر ضروری کام ہیں جو ہم صرف اس لیے کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس وقت ہے۔

یہ قانون صرف انفرادی طور پر کسی کو اپنا نشانہ نہیں بناتا، بڑی بڑی کمپنیاں بھی اس کا شکار ہوجاتی ہیں۔

اگر کسی کمپنی کے کسی پروجیکٹ کی ڈیڈ لائن اگلے ماہ ہے، تو وہ کمپنی روز روز تھوڑا تھوڑا کام کرتی ہے، اس دوران اس پروجیکٹ میں نئے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے، طویل میٹنگز ہوتی ہیں، یہاں تک وہ پروجیکٹ 1 ماہ میں ہی ختم ہوتا ہے۔

لیکن اگر ڈیڈ لائن اگلے ہفتے کی ہے، تو جادوئی طور پر وہ پروجیکٹ ایک ہفتے میں بھی مکمل ہوجاتا ہے۔

اگر آپ اپنے آپ کو کسی کام کو کرنے کے لیے کم وقت دیں، اس دوران غیر ضروری کام کرنے سے گریز کریں تو کم وقت میں بھی آپ اچھا کام کرسکتے ہیں۔

تو اب جب بھی آپ کسی کام کو ختم کرنے کی ڈیڈ لائن اگلے سال، اگلے ماہ، یا اگلے ہفتے رکھیں تو پارکنسن کے اس قانون کو ایک بار یاد کریں، کیا پتہ آپ وہ کام کل یا آج ہی ختم کرڈالیں۔

Comments

- Advertisement -