تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

پارٹی فنڈنگ کیس میں پی پی اور ن لیگ نے جواب جمع کرا دیے

اسلام آباد: الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی پارٹیوں کی ممنوعہ فنڈنگ کی چھان بین کے سلسلے میں آج اِن کیمرا اسکرونٹی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے آج ان کیمرا اسکروٹنی کمیٹی اجلاس میں پیش ہو کر 7 نکاتی سوال نامے کا جواب جمع کروایا، کمیٹی نے سیاسی جماعتوں سے تین روز قبل سوال نامہ دیتے ہوئے جواب طلب کیا تھا۔

الگ الگ اجلاسوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اسکروٹنی کمیٹی کے سوال نامے کا جواب جمع کرایا، کمیٹی نے ن لیگ کے نمایندے تین دسمبر کو دوبارہ طلب کر لیے۔

پیپلز پارٹی نے اپنے جواب میں کہا کہ امریکا میں ہماری کمپنی نہیں ہے۔ جب کہ الیکشن کمیشن اسکروٹنی کمیٹی جواب اور تفصیلات کا جائزہ لے گی، اسکروٹنی کمیٹی نے پیپلز پارٹی کے نمایندوں کو بھی 3 دسمبر کو دوبارہ طلب کر لیا۔

خیال رہے کہ پیپلز پارٹی سے سوال نامے میں ڈونرز کی تفصیلات مانگی گئی تھیں، یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ سالانہ گوشواروں کے علاوہ اگر پارٹی اکاؤنٹس ہیں تو آگاہ کیا جائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف پارٹی فنڈنگ کیس میں 2 دسمبر کو کمیٹی کے سامنے پیش ہوگی۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف غیر قانونی فنڈنگ کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر ای سی پی نے گزشتہ ہفتے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا۔

الیکشن کمیشن نے 26 نومبر سے ہر روز پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا، اس سلسلے میں اپوزیشن کی درخواست منظور کی گئی تھی، ای سی نے اسکروٹنی کمیٹی کو کام تیز کرنے کی ہدایت بھی کی۔ تاہم پی ٹی آئی کا اصرار ہے کہ یہ کیس فارن فنڈنگ کا نہیں بلکہ ممنوعہ فنڈنگ کا ہے، سپریم کورٹ 2018 کے حنیف عباسی کیس میں واضح کر چکی ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے کو وفاقی حکومت دیکھنے کا اختیار رکھتی ہے۔

Comments

- Advertisement -