تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا۔

آدمی کی پوری ذات محبت کے واسطے سے بروئے کار آتی ہے نہ کہ دوستی کے حوالے سے اور جن کی نفرت عمیق نہیں ہوتی ان کی محبت بھی عمیق نہیں ہوتی۔ رہا کھدر کے کُرتے کا معاملہ تو وہ جوگیا ہو یا نیلا، انتہا اس کی پاکستان میں بہرصورت موٹرکار ہے۔ وہ دورِ جاگیرداری گزر گیا جب سعادت حسن منٹو ململ کا سفید کرتا پہن کر تانگے میں مال پر نکلا کرتے تھے۔ اب لاہور کی مال پر تانگا ممنوع ہے اور نئی قدروں نے موٹر کار کی صورت اختیار کر لی ہے۔

ادب اور موٹر کار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب شعر اور افسانہ گھسیٹ دینے کا نام نہیں ہے۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔ ادب اور موٹر کار کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ موٹر تیز چلتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب سواری تیز چلتی ہے تو ادب کی گاڑی رک جاتی ہے۔ مثلاً جب سے پاکستان کے ادیبوں نے رائٹرز گلڈ کے توسط سے ہوائی جہاز میں سفر کرنا شروع کیا ہے، انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ابن انشاؔ نے جتنے عرصے میں پورے یورپ کا دورہ کیا، اتنے عرصے میں میں صرف ایک افسانہ لکھ سکا۔

مولانا محمد حسین آزادؔ جب لاہور کے اکبری دروازے سے گورنمنٹ کالج کی طرف چلتے تھے تو ان کا گھوڑا بہت سست چلتا تھا مگر ان کی نثر سرپٹ دوڑتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ کی کار بہت تیز چلتی ہے۔ البتہ مصرع پوئیاں چلتا ہے۔

میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں استعارے اور تصورات سکے ہوتے ہیں۔ اپنے وقت میں خوب چلتے ہیں۔ وقت کا سکہ بدلتا ہے توان کی بھی قیمت گر جاتی ہے۔ مگر وضع دار لکھنے والے اپنے لفظ، استعارے، ترکیبیں اور تصورات پتھر پہ بجا کے نہیں دیکھتے اور انہیں چالو سمجھ کر آخر دم تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔

ملکہ کے وقت کے تین گھسے ہوئے سکے:

(1) جوشؔ ملیح آبادی کی عقلی شاعری۔

(2) نیازؔ فتح پوری اور نئی پود کی دہریت۔

(3) انسان دوستی۔

چند استعارے جنہیں پھپھوندی لگ چکی ہے: سحر، اندھیرا، رہزن، رہبر۔

کلاسیکی شاعری کے وہ استعارے جو نئے ترقی پسند شاعروں کے ہاتھوں معنی کھو بیٹھے، دار و رسن، زنداں، قفس، منصور۔ غدر سے پہلے کے لفظ، لہجے اور ترکیبیں جن کے کنارے گھس چکے ہیں، معاذ اللہ، ارے توبہ، لہو کے چراغ، پرچم، گہرا سناٹا، خلا، سسکیاں، آکاش، سماج، دھندلکا، حریری ملبوس، غم جاناں، غم دوراں، عظیم ادب، آفاقیت، ابدی اقدار، انفرادیت، رچاؤ، سوز و گداز۔

اردو تنقید کی زنگ آلود ضرب الامثال:

(1) ادب نام ہے تنقید حیات کا۔

(2) ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

(3) ادب شخصیت کا اظہار ہے۔

(4) ادب پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔

(5) ہر ادب اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے۔

(6) ادب روایت کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

گھسی ہوئی دونیاں چونیاں، رمبو، بایلئر، ٹی ایس ایلیٹ، غالب، گورکی، موپساں۔

(انتظار حسین کے مضمون ادب کی الف، ب، ت سے اقتباسات)

Comments

- Advertisement -