تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

کورونا وائرس سے کئی سال پہلے کا چین

عمر بھر سنتا چلا آیا تھا کہ عورت و مرد، زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور اگر یہ ساتھ ساتھ چلیں تو زندگی خوش گوار و تیز رفتار ہو جاتی ہے۔ عملاََ اس کا مظاہرہ چین میں دیکھا۔ ہر شعبہ زندگی میں عورت مرد ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کام کرتے نظر آئے۔

اسپتالوں اور زچہ خانوں سے لے کر بچوں کے اسکولوں، تعلیم و تدریس کے تربیتی اداروں، تیار شدہ ملبوسات و اشیا کی دکانوں، کپڑے کے بڑے بڑے اسٹوروں، گھریلو اشیا کی فروخت کے مراکز اور کتابوں کی دکانوں، غرض عورت و مرد برابر نہیں بلکہ عورتوں کی تعداد مردوں سے کچھ زیادہ ہی تھی۔

کمال کی بات یہ ہے کہ ہوٹل میں دوسرے کاموں کے علاوہ سیکیورٹی گارڈ، ایئرپورٹ کے حفاظتی و انتظامی عملے اور شہر کے ٹریفک نظام میں زیادہ عمل دخل خواتین ہی کا نظر آیا۔ سڑک کے بڑے بڑے چوراہوں پر ٹریفک کے جو بوتھ بنے ہیں، ان میں بھی عموماَ عورتیں ہی کام کرتی دکھائی دیں۔ بڑی بڑی پبلک بسیں بھی عورتیں چلا رہی تھیں، ایسی شائستگی، مستعدی اور کردار کی پاکیزگی و استقامت کے ساتھ کہ ان کے حسنِ عمل کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

(ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کے سفر نامہ چین سے انتخاب، یہ ٹکڑا ایک ادبی جریدے کے 1993 کے شمارے سے لیا گیا ہے)

Comments

- Advertisement -