پشاور: ہائی کورٹ کے بینچ نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور فروس عاشق اعوان کو توہین عدالت کیس میں آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں فواد چوہدری اور سابق معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو آئندہ سماعت پر عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے اور جواب جمع کرنے کا تحریر حکم جاری کر دیا۔
پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ آنے کے بعد وفاقی وزرا نے اسلام آباد کے خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف توہین آمیز پریس کانفرس کی تھی۔
توہین عدالت کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ بار بار نوٹس کے باوجود فریق نمبر 5 فواد چوہدری اور فریق نمبر 6 فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش نہیں ہو رہے۔
ان کے وکلا کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی وزیر کابینہ اجلاس میں مصروف ہیں، جب کہ دوسرا فریق لاہور میں مصروف ہیں، اس لیے وہ حاضر نہیں ہوئے، تاہم عدالت نے فریقین کے وکلا کی استدعا کو غیر تسلی بخش قرار دے کر مسترد کر دیا، اور حکم جاری کیا کہ دونوں فریق آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔
عدالت نے قرار دیا کہ فریق 2 وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، فریق 3 بیرسٹر شہزاد اکبر اور فریق 4 سابق اٹارنی جنرل انور منصور ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر معافی مانگ چکے ہیں، اور حاضری سے استثنیٰ کے لیے تحریری درخواستیں دے کر خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے، یہ عدالت فریق 5 اور 6 کو 19 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتی ہے۔
سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد وفاقی وزرا کی جانب سے خصوصی عدالت کے جج چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ (مرحوم) جسٹس وقار احمد سیٹھ کے بارے میں توہین آمیز پریس کانفرنس کرنے پر پشاور ہائیکورٹ میں دائر توہین عدالت درخواستوں پر جسٹس روح الامین اور جسٹس مسز مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔
سابق وفاقی وزیر اور سابق معاون خصوصی اطلاعات پنجاب حکومت فردوس عاشق اعوان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کل شام فون کال پر عدالتی نوٹس کا پتا چلا، فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا عدالتی نوٹس نہیں ملا، اس وجہ سے وہ پیش نہیں ہوئے۔
جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ فواد چوہدری کو نوٹس کیسے نہیں ملا، میڈیا، اخبارات، سوشل میڈیا سب پر یہ خبریں چلتی ہیں، ان کو کیسے نہیں پتا، جسٹس مسز مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر نوٹس نہیں ملا تھا تو پھر آپ لوگ عدالت میں کیوں پیش ہوئے۔
جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے 3 بار نوٹس جاری کیا، یہ پھر بھی پیش نہیں ہوئے، یہ جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہوتے، کیوں ان کو عدالت میں پیش ہونے میں شرم آتی ہے، ایسا ہے تو انھیں کہیں کہ اپنا منہ بند رکھا کریں، اگر نہیں رکھ سکتے تو پھر عدالت میں پیش ہوں، ان لوگوں نے پریس کانفرنس میں توہین آمیز زبان استعمال کر کے پوائنٹ اسکورنگ کی اور کسی کو اپنا جذبہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔
جسٹس مسز مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ حاضر سروس چیف جسٹس کے خلاف ایسی توہین آمیز زبان کا استعمال ناقابل برداشت ہے۔ جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر، اٹارنی جنرل اور ایک سنیئر وکیل سے کوئی کیسے یہ توقع کر سکتا ہے کہ وہ جج کے لیے ایسی زبان استعمال کرے گا، جب اٹارنی جنرل اور وکیل عدالتوں کا احترام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر جاوید نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، معان خصوصی احتساب شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر معافی مانگ چکے ہیں، انھوں نے تحریری طور پر معافی نامہ بھی جمع کیا، عدالت فروغ نسیم کو حاضری سے استثنیٰ دے چکی ہے، شہزاد اکبر اور انور منصور کی استثنیٰ درخواست بھی منظور کی جائے۔
درخواست گزار وکیل عزیز الدین کاکا خیل نے کہا فواد چوہدری اور فردوش عاشق بار بار عدالتی نوٹس کے باوجود پیش نہیں ہو رہے، یہ اب دوبارہ توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی مشرف فیصلہ آنے کے بعد پریس کانفرس کی تھی لیکن انھوں جج کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کی، مسلم لیگ کے نہال ہاشمی، طلال چوہدری نے توہین عدالت کی تو عدالت نے معافی مانگنے کے باوجود انھیں سزا دی، وفاقی وزرا نے بھی توہین عدالت کی ہے ان کو معافی نہ دی جائے۔
جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم، شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل توہین آمیز زبان استعمال کرنے پر معافی مانگ چکے ہیں، تاہم ان کی معافی کو قبول کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت خود کرے گی۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے مؤکل آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے، اس لیے عدالت ان کے وارنٹ جاری نہ کرے، جس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ ہم آرڈر لکھ رہے ہیں وہ پھر آپ دیکھ لیں۔