پشاور ہائیکورٹ سماعت کے دو رکنی بنچ نے ٹی ٹی پی کےساتھ مذاکرات کے خلاف دائر پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے درخواست خارج کردی.
پسماعت جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس شاہد خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نےآرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت شروع کی تو درخواست گزاروں کے وکیل اجون خان (اجون خان کا بیٹا بھی سانحہ اے پی ایس میں شہید ہوگیا تھا) نے عدالت کو بتایا کہ حکومت طالبان سے مذاکرت کررہی ہے لیکن اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کی فیملیز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہم مذاکرات کے خلاف نہیں ہے لیکن مذاکرات کن شرائط پر ہورہے ہیں ہمیں آن بورڈ تو لیا جائے وزارت داخلہ حکام نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ہمارا ان مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے حکومت ہمیں جواب دیں کہ مذاکرات کن شرائط پر ہورہی ہے
وزارت دفاع کی جانب سے کرنل رضوان عدالت میں پیش ہوئے انھوں نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان پر لاکھوں لوگوں نے جانیں قربان کی ہے جو شہداء ہے ان کو مختلف مراعات دیئے جاتے ہیں سویلین جو شہید ہوتے ہیں ان کو 2 ملین معاوضہ دیا جاتا ہے لیکن اے پی ایس شہداء کو 4 ملین روپے معاوضہ دیا.
فوج کے شہداء کو 7 ملین معاوضہ دیا جاتا ہے اے پی ایس شہداء کی فیملیز کو پلاٹ اور دیگر مراعات کے ساتھ شہیدہونے والوں کی فیملیز کے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی فوج نے اٹھائی ہے کرنل رضوان نے عدالت کو بتایا کہ اے پی ایس میں جو بچے زخمی ہوئے ان کے علاج پر بھی 90 ملین روپے خرچ ہوئے, حملے میں جو دہشتگرد ملوث تھے ان تمام مجرموں کو سزائیں دی گئی ہے.
شہید ہونے والوں کے فیملی کے ایک ایک بچے کی تعلیم پر جو خرچ کیا ہے وہ فائل پر موجود ہے انھوں نے فائل عدالت میں جمع کرا دی جس میں تمام رکارڈ موجود تھا۔
کرنل رضوان نے عدالت کو بتایا کہ ایک زخمی بچے کو علاج کے لئے برطانیہ لے جایا گیا اس کے علاج پر 1 لاکھ 32 ہزار پاونڈ خرچ آیا ہے ایک دوسرے بچے کو جرمنی علاج کے لئے منتقل کیا گیا اس کے علاج پر 20 ہزار یورو خرچ ہوئے یہ سب ہم نے برداشت کیا,زخمی بچوں کے ساتھ ان کے گھر والے بھی گئے ان کو 5 سٹار ہوٹل میں رہائش دی گئی تھی ہم ان فیملی کے ان بچوں کی تعلیمی اخراجات بھی برداشت کررہے ہیں جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ایف ایس سی تک ہم ان کو تعلیم دلا رہے ہیں یہ جس آرمی سکول میں چاہتے تھے ہم نے وہاں ان کے بچوں کو داخل کرایا۔
15 دستمبر 2021 کو انھوں نے احتجاج کیا اور آرمی کے خلاف نعرے لگائے ان کے جو مطالبات تھے ہم نے ان کو پورا کیا پھر ان کو 5 لاکھ روپے دیئے گئے انھوں حلفیہ کہا کہ ہم اب کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرے گے, عدالت چاہیئے تو میں نام بھی بتاسکتا ہوں یہ کہتے ہیں ہم سب کچھ واپس کرنے کو تیار ہے, انھوں نے پلاٹ ڈویلپمنٹ کےلئے آرمی چیف کو خط لکھے ہیں اس پر بھی ہم نے ان کو سہولت دی ہے.
اجون خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اگر یہ کہے تو ہم آج سب کچھ واپس کرنے کے لئے تیار ہے انھوں نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا جو کچھ دیاہے وہ واپس لے لیں ہمیں صرف انصاف چاہیئے ہم یہ سب کچھ مزید برداشت نہیں کرسکتے.
مذاکرات کررہے ہیں تو اس پر ہمیں اعتراض نہیں ہے لیکن ہمیں اعتماد میں لیا جائے اجون خان نے بتایا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی مذاکرات نہیں ہورہے اس وقت بھی علماء کا وفد افغانستان میں مذاکرات کے لئے کیا ہے اگر مذاکرات نہیں ہورہے تو یہ علماء وہاں کیا کررہے ہیں۔
یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پیسے دیئے, اے پی ایس کی پہلی برسی پر دسمبر 2015 کو تمام صوبے کے وزیراعلی نے 5 کروڑ کا اعلان کیا تھا وہ پیسے کہا گئے
یہ اپنے پیسوں کا ذکر تو کررہے ہیں لیکن جو شہداء کے نام پر آئے اس کو بھول جاتے ہیں اے پی ایس کے شہید بچوں کو 4 ملین دیا گیا لیکن جو آرمی کے لوگ تھے ان کو 7 ملین دیا گیا اے پی ایس کو خطرہ تھا اور نیکٹانے لیٹر بھی جاری کیا تھا لیکن انھوں نے سیکیورٹی نہیں بڑھائی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر جاوید نے عدالت کو بتایا کہ یہ چاہتے ہیں کہ ڈائیلاگ میں ان کو شامل کیا جائے آرٹیکل 66 اور 69 واضح ہےاس بارے میں, یہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات میں ہمیں شامل کیا جائے فرض کرے کل کو اگر کوئی آئے اور عدالت میں درخواست دے کہ میرا بیٹا, بھائی,باپ یا شوہر بارڈر پر ڈیوٹی دیتے وقت شہید ہوگیا ہے اور مذاکرات ہورہے ہیں تو اس میں ہمیں شامل کیا جائے تو پھر کیا ہوگا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے درخواست خارج کردی.