تازہ ترین

قومی اور صوبائی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری

الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جاری...

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کردیا

اسلام آباد: نگراں حکومت نے آئندہ 15 دن کے...

صدر مملکت نے چار آرڈیننس جاری کردیے

اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چار...

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اور شوکاز نوٹسز چیلنج کردیے

اسلام آباد: جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل...

’بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی نہ ہو تو بھی الیکشن شفاف اور قانونی ہوں گے‘

لندن: نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی نہ ہو تو بھی الیکشن بالکل شفاف اور قانونی ہوں گے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ترک خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے احتجاج پر الیکشن کو غیرقانونی قرار نہٰں دے سکتے، احتجاج کے ساتھ انتخاب ہو یا بغیر، مقررہ وقت میں ہو تو انتخابی عمل جائز تسلیم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پولنگ کے مقررہ وقت میں احتجاج کی وجہ سے انتخابات کو غیرقانونی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی سمیت سب جماعتوں کو متوازی انتخابی میدان ملے گا لیکن اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی نہ بھی ہو تو بھی الیکشن بالکل شفاف اور قانونی ہوں گے۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ منصفانہ انتخابات ہمارا مینڈیٹ ہے، الیکشن کمیشن کی بتائی ہوئی تاریخ پر ہی انتخابات ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا مکمل آزاد ہے، ملک میں معاشی بحالی کی کوشش کررہے ہیں۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اقلیتوں پر حملہ غیرملکی سازشوں کا حصہ ہے، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاک فوج دیگر معاملات میں غیرضروری مداخلت نہیں کرتی، اکثر فوج پر تنقید غیر ضروری ہوتی ہے۔

اس سے قبل ترک میڈیا ٹی آر ٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ ہم انتخابی عمل میں داخل ہورہے ہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ انتخابی عمل نسبتاً غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوگا جس میں کسی سیاسی جماعت کے حق میں کسی ادارے کی مداخلت نہیں ہوگی۔

انتخابات میں عمران خان کی عدم شمولیت سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا پرامن احتجاج تمام سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن پرتشدد مظاہروں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

نگران وزیراعظم نے حلقہ بندیوں کے متنازع ہونے کے امکان پر کہا تھا کہ مجھے اس بارے میں زیادہ تشویش نہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے، کوئی سیاسی جماعت حلقہ بندیوں کو متنازع سمجھتی ہے تو اس کے لیے درست فورم قومی اسمبلی تھا جہاں وہ قانون تبدیل کرسکتے تھے، مگر کسی نے ایسا نہ کیا اور اب ہم جس مقام پر آکر کھڑے ہیں وہاں ہمیں آئین کی پاسداری کرنی ہوگی۔

Comments

- Advertisement -