تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

ہمت نہیں تو دل کو ہتھیلی پہ مت سجا…

فوزیہ شیخ کا تعلق خوشاب سے ہے- اردو زبان اور ادب سے لگاؤ نے انھیں شاعری پر آمادہ کیا تو انھوں‌ نے غزل کو اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرنے کے لیے چنا اور اسے اظہار کا وسیلہ بنایا-

فوزیہ شیخ نے نظمیں‌ بھی کہی‌ ہیں، لیکن غزل ان کی محبوب صنفِ سخن ہے‌- شہرِ سخن کی اس خوش فکر شاعرہ نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی ہے- ان دنوں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں مقیم ہیں جہاں‌ مختلف ادبی تنظیموں کے تحت مشاعروں میں انھیں‌ مدعو کیا جاتا ہے اور وہ علمی و ادبی سرگرمیوں کا حصّہ بنتی ہیں- فوزیہ شیخ کی ایک تخلیق باذوق قارئین کی نذر ہے-

غزل
جنموں کی داستان ہے، عمروں کا میل ہے
کس نے کہا ہے عشق بھی رنگوں کا کھیل ہے؟

انساں ترے نصیب کی گندم نہ اگ سکی
سونا پہاڑ میں، کہیں صحرا میں تیل ہے

وہ دکھ بھی دے تو کر نہیں سکتی اسے جدا
لپٹی ہوئی بدن سے یہ آکاس بیل ہے

نایاب ہے وفا، کہیں بحرانِ مخلصی
ویسے قدم قدم پہ محبت کی سیل ہے

ہمت نہیں تو دل کو ہتھیلی پہ مت سجا
بزدل تو امتحان میں ویسے ہی فیل ہے

حاصل ہوئی تو چیز کی وقعت نہیں رہی
جس گھر میں قید ہوں کسی رشتے کی جیل ہے

اک تم ہی لوٹ کر کبھی واپس نہ آ سکے
ورنہ تمہارے شہر سے آتی تو ریل ہے

شاعرہ: فوزیہ شیخ

Comments

- Advertisement -