جمعرات, نومبر 13, 2025
اشتہار

مفاہمت کے بادشاہ نے "شکوہ اور جوابِ شکوہ” ختم کرا دیا

اشتہار

حیرت انگیز

شعر و ادب سے شغف رکھنے والے افراد نے یقینی طور پر شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلیات اقبال میں شامل شہرۂ آفاق شکوہ اور جواب شکوہ ضرور پڑھا ہوگا۔ 1911 اور 1913 میں تخلیق ہونے والے اس کلام میں شاعر مشرق نے مسلمانوں میں پستی اور زبوں حالی کے اسباب کو اجاگر کرتے ہوئے، انہیں ایک نئے انداز سے عمل کی دعوت دی ہے۔ تاہم آج کل ملک میں جو سیاسی شکوہ اور جواب شکوہ ہو رہا ہے، اس کا رنگ اس سے یکسر الگ ہے۔ لیکن کئی روز سے دونوں جانب سے جاری اس راگ کو اب صدر مملکت سے ن لیگ کے وفد کی ملاقات کے بعد ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، مگر ہماری سیاست کی تاریخ ہے کہ ہلکی پھلکی موسیقی کا ایسا سلسلہ جاری ہی رہتا ہے۔

پاکستان ابھی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریاں جھیل رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمراں، ان کی اتحادی اور حلیف جماعتیں سیلاب متاثرین کی بحالی اور مدد پر بھرپور توجہ دیں، مگر سب نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے جس طرح ماضی میں ایک دوسرے پر لاشوں پر سیاست کرنے کے الزام لگائے۔ عین اسی طرح اب بدترین سیلاب میں بھی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کی۔

یوں تو دونوں جماعتوں نے گزرے چار ساڑھے چار سالوں میں کئی بار اختلافات کے ساز بجائے، لیکن وہ اس نہج پر نہیں پہنچے تھے، کہ عوامی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف گھن گرج سنائی دینے لگی تھی۔ یہ سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب پنجاب میں بدترین سیلاب کے بعد پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے پنجاب حکومت کو متاثرین سیلاب کی بحالی کے لیے عالمی اداروں سے مدد طلب کرنے اور اس کے بعد متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مدد کرنے کا مشورہ دیا۔ بلاول کی جانب سے یہ تجاویز عوامی سطح پر بار بار دہرانے کے پنجاب حکومت نے ان دونوں تجاویز کو مسترد کیا اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بلاول بھٹو جنہیں وہ اپنا چھوٹا بھائی کہتی رہی ہیں، ان کے مشورے کو بھرے مجمع میں مسترد کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایک تقریب میں پی پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کئی ماہ سے سوئے ہوئے نہروں کے مسئلے کو اٹھا کر "میرا پانی میری مرضی” کا نعرہ بلند کیا تو سمجھو طبل جنگ بجا دیا۔ اس کے بعد تو دونوں جانب سے دلوں میں چھپی ایک دوسرے کے خلاف مخاصمت زبان پر ایسی لائی گئی کہ یہ زبانی گولہ باری سن کر دونوں جماعتوں کے حامی الامان الحفیظ کہتے رہے جب کہ مخالفین دل ہی دل میں مسکراتے اور مستقبل کے سنہرے خواب جاگتی آنکھوں دیکھتے رہے۔

دونوں جماعتیں شکوہ جواب شکوہ کی طرح ایسے پریس کانفرنسیں کرتی رہیں کہ ایسا لگنے جیسے دونوں پارٹیوں کے کچھ رہنماوں کو غیر اعلانیہ یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ جیسے ہی کسی جانب سے زبانی فائر ہو، تو وہ اس سے زیادہ شدت سے جواب دیں اور اس کے لیے فریقین کے رہنما نِک سک کے ساتھ تیار بیٹھے نظر آئے۔ اس دوران دونوں جماعتوں کے مفاہمت کے کئی دور ہوئے لیکن مریم نواز کے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے، پی پی پر مسلسل تنقید اور خود کو حق پر قرار دینے کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کی جانب سے سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کی سیکیورٹی واپس لینے نے ان اختلافات کی آگ کو مزید بھڑکا کر مفاہمت کے امکانات کو معدوم کر دیا تھا۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ 90 کی دہائی کی بدترین سیاسی دشمن رہی ہیں۔ جنہوں نے ماضی میں ایک دوسرے کو غدار وطن اور سیکیورٹی رسک تک قرار دینے سے گریز نہیں کیا۔ لندن میں میثاق جمہوریت کیا، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی دونوں جماعتوں نے اقتدار کے لیے اس میثاق کو اپنے پیروں تلے روند دیا۔ یہ جماعتیں رواں دہائی کے اوائل میں "جمہوریت اور ملک بچانے کے لیے” اکٹھا ہوئیں اور تب سے ہم نوالہ وہم پیالہ بنی ہوئی ہیں۔ مفادات پر مبنی اس سیاسی دوستی اور رفاقت کے ٹوٹنے کے شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ پی پی نے پہلے اشاروں اور کنایوں میں اور جب ببانگ دہل اپنی حمایت واپس لینے کی دھمکی دینا شروع کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا۔

سیاست میں کبھی بھی کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی دوست اور نہ ہی سیاست میں کبھی دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ بلکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اس لیے پی پی اور ن لیگ کی مشترکہ دشمن جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھی موقع سے فائدہ اٹھانے اور ایک دشمن کو سامنے سے ہٹانے کے لیے عدم اعتماد لانے کی صورت میں پی پی کو حمایت کی پیشکش کر دی تھی۔

جب حالات قابو سے باہر ہوتے نظر آئے تو پھر مفاہمت کے بادشاہ کہلانے والے ماضی میں کئی بار یہ کردار بخوبی نبھانے والے صدر آصف علی زرداری کے نوابشاہ میں آستانے پر ن لیگ کا اعلیٰ سطح کا وفد جن میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی شامل تھے۔ اس ملاقات میں اندرون خانہ گفتگو کے بعد مفاہمت جاری رکھنے اور دونوں جانب سے متنازع بیانات جاری رکھنے کا سلسلہ جاری رہنے کا نسخہ کیمیا دہرانے کے بعد وفد کی ملاقات کے بعد فی الوقت تو یہ طوفان ٹل گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کو ن لیگ کی حکومت کی طاقت معلوم ہے اور شہباز حکومت بھی اپنی حقیقت جانتی ہے کہ جس روز پی پی نے بغیر کوئی وزارت لیے وفاق کو اپنی دی گئی حمایت واپس لی تو اس حکومت کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب کرسی کو بچانے کے لیے اسے نئے پایوں کی طاقت نہ فراہم کی جائے۔ بہرحال اس کے ساتھ دونوں جماعتیں اس حقیقت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ وہ ایک ہی درخت کے سائے تلے پروان چڑھ رہی اور ایک ہی ٹہنی پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس لیے اگر انہوں نے یہ ٹہنی کاٹنے کی کوشش کی تو کوئی ایک نہیں بلکہ دونوں ہی منہ کے بل گر کر درخت کے سائے سے محروم ہو جائیں گی اور ایسا کوئی بھی نہیں چاہتا۔

اس ساری صورتحال سے ایک اور حقیقت آشکار اس وقت ہوئی جب وزیراعظم اپنی بھتیجی اور وزیراعلیٰ پنجاب کی شکایت لے کر اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے پاس گئے اور ان سے مریم نواز کی پی پی اور سندھ حکومت کے خلاف جاری شعلہ بیانی رکوانے کی درخواست کی، لیکن نواز شریف نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی کی حمایت کی۔ بڑے بھائی کے اس موقف نے چھوٹے بھائی شہباز شریف پر بہت کچھ واضح کر دیا کہ آگے کس کا سیاسی مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟ دوسری جانب رانا ثنا اللہ نے بھی یہ کہہ کر مستقبل کے سیاسی منظر نامہ کی عکاسی کر دی مریم نواز وزیراعظم بننے کی تیاری کر رہی ہیں۔ شہباز شریف خود انہیں وزارت عظمیٰ کا حلف تھمائیں گے اور نواز شریف یہ فیصلہ کبھی بھی کر سکتے ہیں کہ کون کس عہدے پر ہوگا۔

+ posts

ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں