تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانی)

ایک ندی تھی اور اس کے کنارے انار کا ایک درخت۔ درخت پر کچھ انار لگے ہوئے تھے اور ندی میں کچھ مچھلیاں بھی دُمیں ہلاتی رہتی تھیں۔

زمین کے نیچے سے درخت کی جڑیں ندی میں پاؤں پھیلانے لگی تھیں۔ مچھلیوں نے کئی بار اناروں سے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں نہ پھیلائیے لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی تھی۔ مچھلیوں نے طے کر لیا کہ درخت کی جڑیں چبا ڈالی جائیں۔ مچھلیوں نے جڑیں چبانا شروع کر دیا۔

اناروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ اب کی بار مچھلیوں نے سنی ان سنی کر دی۔ اناروں نے سخت دھمکیاں دیں۔ مچھلیوں نے کہا: جو کرنا ہے، کر لیجیے۔ اناروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور ان میں سے ایک انار نے خود کو ایک مچھلی پر گرا لیا۔ مچھلی کا سر پھٹ گیا۔ خون بہنے لگا۔ ساری ندی سرخ ہو گئی۔

مچھلیوں نے انار کو پکڑ کے باندھ لیا۔ اناروں نے احتجاج کیا کہ تمہیں ہمارے ساتھی کو گرفتار کر لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آخر ہم ایک ملک میں رہتے ہیں، جس کا کوئی قانون ہے، قاضی ہے۔ ایک مچھلی نے کہا: تمہیں کس نے حق دیا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں پھیلاؤ؟ ایک انار کہنے لگا: پانی صرف تمہارا تھوڑی ہے؟ ہمارا بھی تو ہے۔ یہ ندی تمہاری پیدائش سے پہلے کی موجود ہے اور ہم بھی اسی وقت سے موجود ہیں۔ مچھلیاں کہتی رہیں کہ تم اناروں نے زیادتی کی ہے۔ تم نے ہماری ساتھی بے چاری کا سر پھوڑ دیا ہے۔

بات کسی طرف نہ لگی اور ان میں تُو تکار بڑھ گئی۔ آخر کار قاضی کے پاس پیش ہونا طے پایا۔ سر پھٹی مچھلی اور ہاتھ بندھا انار قاضی کے ہاں جا پہنچے۔ قاضی کے پاس کئی اور مدعی اور ملزم بھی جمع تھے۔ انہیں دیکھتے ہی قاضی کی رال ٹپکنے لگی اور اس نے کہا: آئیے آئیے، کہیے کیا مسئلہ ہے؟ دونوں نے اسے ماجرا کہہ سنایا۔ قاضی نے کہا : آپ ذرا انتظار کر لیجیے، میں پہلے دوسروں کے معاملے نمٹا لوں۔

انار اور ننھی مچھلی ایک کونے میں کھڑے ہو کر لگے انتظار کرنے۔ قاضی کام ختم کر کے ان کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کے منہ ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ بہت دلاسا دیا اور پھر اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا: بیگم! توے پر خوب گھی ڈال کر چولھے پر چڑھا دو، دوپہر کو ہم مچھلی کھائیں گے۔ اور ہاں سنو! یہ انار بھی لے جاؤ، اس کا رس مچھلی پر چھڑکیں گے تو اور ہی مزہ آئے گا۔ انار اور مچھلی کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کھسر پھسر کی کہ دیکھو تو ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے قاضی کی بیگم کی بہتیری منت سماجت کی کہ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں، ہمیں جانے دیجیے مگر بیگم نے کہا: فیصلہ تو قاضی ہی کا چلتا ہے۔ مجھے تو اس پر عمل کرنا ہے اور بس۔ یہ کہہ کر اس نے مچھلی کی کھال اتاری اور اسے توے پر چڑھا دیا۔ مچھلی بے چاری تڑپتی پھڑکتی رہی۔ پھر اس نے انار کو پکڑ کر اس کا رس نکالا اور تلی ہوئی مچھلی پر چھڑک دیا۔ قاضی اور اس کے بیوی بچوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔

خبر اناروں اور مچھلیوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ دکھ اور درد میں ڈوب گئے اور انہوں نے دونوں کا سوگ منایا۔ سوگ کے دنوں ہی میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ قاضی اگر باہر کا ہوا تو ان کے لیے کبھی کچھ نہیں کرے گا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے معاہدہ کر لیا کہ ایک دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کیا کریں گے۔

(کتاب سفید پرندہ سے منتخب کردہ کہانی)

Comments

- Advertisement -