تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

صدر نے قومی احتساب ترمیمی بل 2022 بغیر دستخط واپس کردیا

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب ترمیمی بل 2022 بغیر دستخط کیے واپس کردیا اور کہا ہے کہ میرا ضمیر مجھے اس بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب ترمیمی بل 2022 بغیر دستخط کیے واپس کردیا اور کہا کہ میرے خیال میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے اور میرا ضمیر مجھے اس بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

صدر مملکت نے مزید کہا کہ قومی احتساب ترمیمی بل سے قانون کے لمبے ہاتھوں کو مفلوج کرکے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا،یہ بل بدعنوان عناصر کیلئے واضح پیغام ہے کہ وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور وہ بلاخوف و خطر لوٹ مار جاری رکھ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر علوی کا کہنا تھا کہ عوام میں دو رائے نہیں پائی جاتی کہ بدعنوان عناصرنے بے تحاشا دولت اکٹھی کر رکھی ہے، کمزور آدمی معمولی جرائم میں بھی پکڑا جائے گا جبکہ بااثر بدعنوان عناصر کو قوم کا خون چوسنے کے مکروہ عمل کی کھلی آزادی ملے گی، احتساب کا عمل کمزور کرنا نہ صرف خلاف آئین بلکہ بنیادی حقوق کےبھی خلاف ہے۔

صدر علوی نے مزید کہا کہ ہمیں ایسے معاملات پر اسلامی فقہ سے بھی ہدایت لینی چاہیے، انہوں نے اس حوالے سے اپنے ایک ٹوئٹ میں خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک واقعے کا حوالہ بھی دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کالا دھن جو کہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی سے حاصل کیا جاتا ہے، بدعنوان عناصر کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا جس کا کھوج لگایا جاسکے، دنیا بھر کے ممالک وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کررہے ہیں، فیٹف بھی ایسی ہی مثال ہے جو منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے کام کررہا ہے۔

صدرمملکت نے کہا کہ ملزم کو ذرائع آمدن پر ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں، ثبوت دینا ہوتے ہیں کہ جائیداد یا دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی، دولت کی ملکیت ثابت کرنا استغاثہ کی جبکہ ذرائع ثابت کرنا ملزم کی ذمے داری ہے، نامعلوم ذرائع سے دولت کا حصول پاکستان میں ایک جرم تھا، ان ترامیم سے اس تصور کو کمزور کر کے کافی حد تک غیر موثر بنا دیا گیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی عام تاثر کی عکاسی کرکے کہا بدقسمتی سے نیب آرڈیننس میں خامیاں ہیں، یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح انتظامیہ کو اختیار دیتا ہے اور اس کا استعمال طاقتور عناصر کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جاسکے گا۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ایک طرف جب عوام کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تقاضہ کیا جاتا رہا ہے، ادھر طویل عدالتی کارروائیوں اور غیر موثر استغاثہ نے بدعنوانی روکنا مشکل بنا دیا ہے، ان قوانین میں موجود واضح سقم دور کرنے اور انصاف موثر بنانے کیلئے ترامیم  لانی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کی توقع نہ تھی کہ نئی ترامیم کے ذریعے پچھلی حکومتوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے گا اور احتساب کے عمل کو  ناقابل یقین حد تک کمزور بنادیا جائے گا، یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ادارے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتر کے بجائے زمین بوس کر دیا گیا ہے اور یہ احتساب غیر مؤثر اور استحصالی اداروں ونظام کو فروغ دینے کے مترادف ہیں۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کمزور قوانین انصاف کے لبادے میں بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں، جو قومیں ایسے قوانین اپناتی ہیں وہ عام آدمی کا استحصال بلکہ نا انصافی کا بھی باعث بنتی ہیں۔

صدر عارف علوی نے اپنے نوٹ میں مزید کہا کہ حقیقت سے آگاہ ہوں کہ  دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ قانون بن جائیگا، لیکن میں ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاسداری کرتا ہوں، ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے، میں خود  کو اللہ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں اور معافی کا طلبگار رہتا ہوں، میرا ضمیر مجھے اس بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

Comments

- Advertisement -